پاکستان کی سیاسی اور معاشی ابتری

ہماری عدالتیں بہت فعال نظر آ رہی ہیں ہماری سیاسی جماعتوں اور قائدین نے اپنے فیصلے خود کرنے کے بجائے یہ ذمہ داری عدلیہ کے سپرد کررکھی ہے ہماری عدالتی تاریخ بہت روشن روایات کی حامل نہیں ہے جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے تحت دئے گئے فیصلے کے بعد سے آج تک ہم اس شاہراہ دستور پر محوسفر ہو ہی نہیں سکے جو تعمیر و ترقی خوشحالی اور قومی یکجہتی کی منزل کی طرف جاتا ہے ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم آج تک یہ بات حتمی طور پر طے نہیں کر سکے کہ ملک میں مقتدر کون ہے اور اس ملک پر حق حکمرانی کس کا ہے؟ عوام کا یا طبقہ شرافیہ کا یا اسٹیبلشمنٹ کا؟ سول بیورو کریسی یا یونیفارم بیورو کریسی قومی معاملات چلانے کی ذمہ دار ہے؟ ہم ابھی تک یہ بات طے نہیں کر سکے کہ حاکمیت کس کی ہے ویسے تو آئین پاکستان میں واضح الفاظ میں لکھاہوا ہے کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اور وہی مقتدر اعلیٰ ہے جبکہ حکمرانی قرآن و سنت کے احکامات کے مطابق کی جائے گی اور عوامی نمائندے قرآن و سنت کے مطابق ریاستی معاملات چلانے کے ذمہ دار ہوں گے اسی آئین کی موجودگی میں جنرل ضیاء الحق نے گیا رہ سال حکومت کی عوامی نمائندے بھی منتخب کرائے اور اسی آئین میں ترمیم کروا کر اپنے مارشل لاء کو درست قرار دلوایا اورمارشل لاء دور کے تمام احکامات کو جائز بھی منوایا پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اسی آئین کی موجودگی میں جنرل مشرف اس وقت تک مقتدر اعلیٰ بنے رہے جب تک ان کے قوت انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتے رہے عدالتیں ان کے ساتھ رہیں ایسے ہی جیسے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تھیں جنرل ضیاء الحق کو بھٹو خاندان کے خلاف شریف خاندان مل گیا بلکہ انہوں نے تلاش کر لیا اور اس کی آبیاری کی اور طاقتور بنایا اور اقتدار میں لایا گیا پھر جنرل مشرف نے شریف خاندان کو ختم کرنے کے لئے چوہدری برادران میدان میں اُتارے ان کی کارگردگی قابل ستائش نہیں تھی عمران خان اور اس کی تحریک انصاف پر دست شفقت رکھا نوازشریف اور ان کی جماعت کو اقتدار سے الگ کر کے عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کی اقتدار میں آنے کی راہ میں آسان کی گئیں ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں پونے چار سال کے بعد چلتا کیا اور ایک بار پھر شریف خاندان اقتدار میں آگیا عدلیہ کے ذریعے ہی نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کو نا اہل کیا گیا اورنیب کے ذریعے انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا مسلم لیگ ن کو ختم کرنے کی کاوشیں کی گئیں آج یہ سارا عمل الٹا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے نیب کے دانت کھٹے کر دئے گئے ہیں جھوٹے مقدمات ختم ہو رہے ہیں مریم نواز کو اُن کا پاسپورٹ تین سال بعد واپس مل چکا ہے نوازشریف کی بریت بھی صاف نظر آرہی ہے ان حقائق کے مطابق نوازشریف کی واپسی عدلیہ کے ذریعے بریت اور پھر سیاست میں بھر پور کردار اب دور کی بات نظر نہیں آرہی ہے یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ذرا سوچئے کہ جو کچھ ہو رہا ہے سب کے سامنے ہی تو ہو رہا ہے تاریخ میں 1958سے ایسے ہی ہو رہا ہے بیورو کریسی یونیفارم‘بیورو کریسی فوجی جنرل عوام کے حقوق حکمرانی پامال کرتے رہے ہیں آئین شکنی ہوتی رہی ہے طالع آزماؤں کو حواری بھی مل جاتے ہیں سیاسی رہنما اور سیاسی جماعیتں انہیں کندھا دینے کے لئے بھی دستیاب ہوتی رہی ہیں جنرل مشرف کو دس دفعہ بھی صدر منتخب کرانے کا نعرہ لگایا جاتا رہا ایسا ہی کچھ جنرل ضیاء الحق کے لئے بھی کیا جاتا رہا ہے ہماری سیاست اگر ہم اسے سیاست کہتے ہیں کو دائروں میں گھومتی نظر آرہی ہے آبادی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور وسائل اس رفتار سے نہیں بڑھ رہے ہیں قومی معیشت میں استحکام کا فقدان ہے انفرادی معیشت تباہی کا شکار ہے خط غربت سے نیچے جانے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے
پاکستان کا نام نہاد مشہور ترین لیڈر ہونے کا دعویدار عمران خان عوامی جلسوں میں کبھی اسٹیبلشمنٹ کو کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہ کر للکارتا ہے لیکن چھپ چھپ کر ایون صدر میں اُسی کے ساتھ مفاہمت کی بات بھی کرتا ہے اُن سے درخواست کرتے ہوئے پایا گیا ہے کہ اسے ایک بار پھر گود لے لیں ہماری پاپو لر لیڈر شپ کے حالات دیکھ لیں۔عمران خان نے بدترین حکمرانی کی مثال قائم کی عمران نیازی کے پاس نہ تو کوئی کارکردگی ہے جس کی بنیاد پر وہ عوام کے پاس جائیں اور نہ کوئی ٹھوس بیانیہ ہے اس لئے انہوں نے عوام میں مقبول اینٹی امریکن سوچ کو اپنایا پورے چار سال کی حکمرانی کے دوران عمران نیازی نے خود عوامی آزادی کیوں حاصل نہ کر لی امریکہ کی غلامی ترک کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کے پاس جا کر کڑی شرائط پر معاہدہ کیوں کیا؟ عمران نیازی کی گندی سیاست کے ہاتھوں نہ تو مذہب محفوظ ہے اور نہ ہی مملکت‘ سیاست گالی گلوچ کی نذر ہوئی مکالمہ زہر آلود ہوا مقتدر اداروں کی دوبارہ حمایت حاصل کرنے کے لئے ہزاروں جتن کئے گئے آرمی چیف کی تعیناتی کا آئینی عمل خراب کیا گیا الیکشن کمیشن جیسے ادارے کی مٹی پلید کی گئی میڈیا کو گند کا ٹوکرا ظاہر کیا گیا عالمی طاقتوں سے بے مقصد محاذ آرائی کی گئی کہ عوامی مقبولیت ملے،نہ کوئی نظریہ اور نہ ہی کوئی مقصد اور نہ ہی کوئی منزل، حقیقی آزادی کی لایعنی جدوجہد اور مرنے مارنے کی اشتعال انگیزیاں‘ جاری سیاسی معاملات ایسے ہی چل رہے ہیں جیسے چلتے رہے اس لئے ایک ہی جیسے معاملات سے مختلف نتائج حاصل ہونے کے امید عبث ہے نوازشریف کے دور حکمرانی میں تعمیر و ترقی کے کئی میگا پر اجیکٹس مکمل ہوئے پاکستان ایٹمی طاقت بنا معاشی صورتحال قدر ے بہتر تھی بیور وکریسی اپنی اوقات میں رہی اسلامی ممالک باالخصوص سعودی عرب وغیرہ کے ساتھ تعلقات بہتر رہے مسئلہ افغانستان سے متعلق معاملات میں بھی پاکستان کے مفادات مقدم رہے دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پروگرام کا اجراء ہوا دہشت گردی پرقابو پالیا گیا بجلی کی لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کر دی گئی صوبہ پنجاب میں شہباز شریف نے ترقیاتی کاموں کے ریکارڈ قائم کئے ترکی کے ساتھ نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ شراکت داری قائم کی گئی سی پیک کے ذریعے چین کے ساتھ ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی کو فائدہ مندی کی شکل دی گئی معاملات بشری کی طرف چلنا شروع ہوئے ہی تھے کہ نوازشریف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے ایک محاذ کھڑا کر دیا جس میں نیب ایف آئی اے اور عدالتیں سب کو شریک کر لیا گیا انہیں نا اہل قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا پارٹی کی قیادت کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی نواز شریف کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہمارے ہاں بد حواسیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو قیام پاکستان سے جاری ہے اسی کے باعث ملک دو ٹکڑے ہو گیا بنگالیوں نے ہم سے علیحدگی اختیار کر لی آج وہ فائیوجی ٹیکنا لوجی کی طرف جا رہے ہیں اُن کے زرمبادلہ کے ذخائر اور بر آمدات ہم سے زیادہ ہیں وہ خوشحال قوم ہیں ہم آئی ایم ایف سے کچھ ڈالر لینے کے لئے اپنی ہر شے قربان کرنے پر تیار رہتے ہیں ہماری قومی غیرت نہ جانے کہاں چلی گئی ہے ہم امریکیوں کے احکامات ماننے پر مجبور اس اور آزاد فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہیں ایسا کب تک چلے گا؟ کسی کو پتہ نہیں ہے اس لئے ایسا ہی چلتا رہے گا تبدیلی کا امکان کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے لہٰذا پاکستان اور پاکستانی عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں