79

ناحق قتل کبیرہ گناہ

ہمارے معاشرے میں قتل وقتال مختلف حیلے بہانوں سے عام ہوتاجارہا ہے کسی کوذاتی رنجش، بغض،حسد،ذاتی دشمنی کی بھینٹ چڑھادیا جاتاہے توکبھی کسی بے گناہ کولالچ میں آ کر جائیدادکی خاطرموت کی نیند سلا دیا جاتا ہے،کبھی حرص میں توکبھی چوری ڈکیتی نیت سے آنے والے لوٹ مارکرکہ مال ودولت پرہاتھ صاف کرنے والے کسی بے گناہ کے خون سے ہاتھ آلودہ کرکے راہ فراراختیارکرجاتے ہیں ان وجوہات کی بناپر یا پھراس کے علاوہ کسی بھی وجوہ کی بنا پرکسی کوقتل کرنا،کسی کی زندگی سے کھیلنا یا کسی بھی انسانی جان کونقصان پہنچانے سے قبل یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں ہمارا مذہب اسلام ہے ہمارے مذہب کی کچھ حدودہیں جن سے باہرہم کبھی بھی کسی بھی صورت نہیں نکل سکتے اورنا ہی ہم ان حدودکوتوڑکراپنے لیے کوئی جوازکا بہانہ بنا سکتے ہیں ہمارادین اسلام کسی جانورکو تکلیف پہنچانے کی بھی اجازت نہیں دیتا توانسان کوقتل کی اجازت کیسے دے گا

ہمارے پیارے نبی کریم روف الرحیمؐ نے ارشادفرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرامسلمان محفوظ رہے اس حدیث کی روشنی میں تومسلمان کوتکلیف پہنچانے سے منع کیاگیاہے مسلمان کی یہ خوبی وشان بیان کی گئی ہے کہ دوسرے مسلمان کوہاتھ سے بھی تکلیف نا پہنچاؤاورزبان سے بھی عام طور پر زیادہ تر،ان دوچیزوں سے ہی تکلیف دی جاتی ہے یایہ دونوں طریقے تکلیف کاذریعہ بنتے ہیں شریعت اسلامیہ میں انسان خاص کرمسلمان کوایک خصوصی مقام ومرتبہ عطاء کیاگیاہے انسان کواشرف المخلوقات ہونے کااعزازبھی حاصل ہے قتل انسانیت کے بارے میں رب العالمین کا قرآن مجید فرقان حمید میں واضح ارشاد موجودہے جس نے ایک انسان کوقتل کیاگویا اس نے پوری انسانیت کوقتل کیا اس سے معلوم ہواکہ بے گناہ انسان کوقتل کرنا،ناتوکسی طرح درست ہے اورناہی شریعت اسکی اجازت دیتی ہے ایک انسان کوقتل کرنے والاقتل سے قبل یہ بات ذہن نشین کرلے کہ وہ ایک انسان کونہیں بلکہ پوری انسانیت کوقتل کرنے والاہے

اورایک انسان کے قتل کاگناہ وہ اپنے سرنہیں لے رہابلکہ اسکے سر پر پوری انسانیت کے قتل کابوجھ بھی ہے اورگناہ بھی کسی مسلمان کوناحق قتل کرناکبیرہ گناہوں کی فہرست میں شدیدترین گناہوں میں سے ایک گناہ ہے اس پرقرآن وحدیث میں سخت وعیدیں اوردہوئیں ہیں صرف وعیدہی نہیں بلکہ شریعت نے اس پرسزا بھی مقرر کی ہے اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی واضح طورپراس عنوان پرارشادات مبارکہ موجودہیں جس میں بہت ہی سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں جیساکہ نبی کریم روف الرحیمؐ نے ارشادفرمایاکسی مسلمان کادوسرے مسلمان کوجو اللہ کے ایک ہونے کی میرے رسول ہونے کی گواہی دیتاہوخون بہانا حلال نہیں مگرتین صورتوں میں ایک یہ کہ اس نے کسی کوقتل کردیاہو، دوسرا یہ کہ شادی شدہ ہوکرزنا میں مبتلاء ہو،تیسرا یہ دین اسلام چھوڑکردین اسلام سے الگ ہوگیا ہو ان تین صورتوں میں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اسکی سزا کااجراء اورتعین کرناحکومت وقت کاکام ہے ہرشخص مجاز نہیں ہے اسی طرح ایک اورمقام پرحضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول مقبولؐنے ارشادفرمایا جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمہ سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گااسکی پیشانی پرلکھا ہوگا یہ شخص اللہکی رحمت سے محروم ہے

ذراسوچیں اس سے بھی بڑی بدبختی کسی کے مقدرمیں ہوگی جب سب اللہکی رحمت سے امیدلگائے جنت میں جانے کے خواہشمند ہوں تواس وقت اللہ کسی
کی پیشانی پر محرومی کی مہرلگادیں اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم شفیع اعظمؐنے ارشاد فرمایاکہ اگرتمام روئے زمین وآسمان کے لوگ کسی مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کواوندھے منہ جہنم میں ڈال دیں گے اس قدر سخت احکامات شدید وعیدوں کے توہمارے کلیجہ کانپ جاناچاہیے ہمیں خوف خداکوغالب رکھتے ہوئے اس طرح کاقدم اٹھانے کاتصوربھی نہیں کرناچاہیے حالانکہ کسی کوناحق قتل کرنیوالے چہرہ ڈھانپ کر یارات کے اندھیرے میں اس طرح یہ کبیرہ گناہ سرانجام دیتے ہیں کہ انہیں کسی نے نہیں دیکھاجبکہ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس ذات نے انہیں سزاء دینی ہے جس ذات نے اس قاتل کواوندھے منہ جہنم میں ڈالناہے جو ذات دلوں کے حال سے بھی واقف ہے جورات کے اندھیرے میں بھی انسان کی حرکات وسکنات کودیکھنے کیساتھ ساتھ ہرہرپل ہرہرلمحہ سے بخوبی واقف ہے

اس سے کوئی کیسے بچ سکتاہے وہ اللہ اسے دیکھ بھی رہاہے اس کے اس جرم پرگواہ بھی ہے اس جرم پرسزابھی دیگااوراسے اوندھے منہ جہنم میں بھی ڈالے گا اگرچہ یہ مجرم دنیامیں طاقت،دولت،عہدہ اورغرورکے نشہ میں مست ہوکردنیاکی سزاء وجزاء سے بچ جائے لیکن وہاں اللہ کی عدالت میں کسی صورت سزاسے بچ ناپائے گااورناہی وہاں اسکی دولت کام آئے گی ناسفارش اورناہی کوئی عہدہ کام آئے گاوہاں انصاف ہوگا صرف انصاف اس لئے دنیا میں کوئی بھی جرم کرنے سے قبل یہ احساس ضرور ہوناچاہیے کوئی دیکھے نادیکھے اللہ دیکھ رہاہے کسی کا ڈر وخوف ہو یا نا ہو اللہ کاڈر وخوف ضرورہوناچاہیے کیونکہ قتل جیسا سنگین جرم وگناہ جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے جہاں اللہ کے حکم سے بغاوت ہے وہاں دوسری طرف حقوق العبادکی بھی پامالی ہے جس سے چھٹکارا کسی صورت ممکن نہیں اوراس پرشریعت نے اپناواضح مؤقف بھی بیان کیاہے اورسزائیں بھی مقررکی ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں