420

میاں محمد بخش ؒ کے کلام پر شہنائی بجانے پر شہرت ملی

فن در حقیقت وہ کسی بھی قسم کا فن ہو، تحفہ الٰہی ہے۔ اگرچہ فن کے اظہار کی کیفیت فن کے سامنے آنے کا ذریعہ ہوتی ہے فن کی قدر و منزلت پر سب سے پہلے اہل فن حضرات کی توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ اپنے وجود میں سمائے ہوئے اس بیش بہا خزینے کی قدر و قیمت پر توجہ دیں اور اسکا احترام کریں۔ احترام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اسے صحیح اور شایان شان جگہ پر استعمال کریں۔فن کوئی ایسی دولت نہیں ہے جو مشقتوں کے ذریعے اور پسینہ بہا کر حاصل کر لی جائے۔ اگر انسان کے اندر فنکارانہ استعداد نہ ہو تو وہ کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے اس وادی میں ابتدائی چند قدم سے آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ یہ فنکارانہ استعداد فنکار کی محنت و مشقت کا نتیجہ نہیں ہے

بلکہ یہ خداداد شے ہے ہمارا معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ زوال پذیر ی کی جانب گامزن ہے کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہم اپنے پروفیشلنز کی ناقدری کرکے اپنے آنے والی نسلوں کیلئے کیا پیغام چھوڑ کر جارہے ہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے جن قوموں نے اپنے پروفیشنلز کی قدرکی انھوں نے عروج پایا۔آج ہم جس فنکار کی شخصیت پر بات کرنے جارہے ہیں انھوں نے نہ صرف ملک عزیز پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی اپنے فن کے ذریعے لوہا منوایا اپنے فن سے جنون کی حد تک محبت نے ان کو خواجہ خواجگان
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ پر حاضری کا موقع بھی فراہم کیا۔محرم حسین کا تعلق تحصیل و ضلع راولپنڈی کے گاؤں موہڑہ بھٹاں سے ہے وہ شہنائی نواز ہیں اس فن نے ان کو عروج بخشا۔

انھوں نے یکم جولائی 1975کو محمد صادق کے ہاں آنکھ کھولی وہ بتاتے ہیں کہ 1990ء میں باقاعدگی کے ساتھ اس شعبہ میں قدم رکھا اور 1992ء میں اپنے استاد ماسٹر گلزار آف ساگری مجید آباد کی شاگردی کی اختیار کی ان کی شاگردی میں پندرہ سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ماسٹر گلزارحسین کو انگریزوں کے دور میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا اس وقت ان کی تعلیم میٹرک تھی اس کے ساتھ انھوں نے پی ٹی سی کورس‘موسیقی کا کورس اور حکمت کا کورس بھی کر رکھا تھا۔ محرم حسین زندگی کے ابتدائی سال راولپنڈی میں گزارنے کے بعد 2000ء میں ڈھڈیال منتقل ہو گئے انھوں نے بتایا کہ 12 سال تک پاک آرمی 35AK میں بطور فنکار خدمات انجام دیں جب بھی کوئی فنکشن ہوتا تھا تو اسٹیج ڈرامہ پیش کیا جاتا تھا جس میں ہمیں پرفارم کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ڈھڈیال خادم آباد میں ہی شادی کی ایک تقریب میں انھیں پرفارم کرنے کے لئے دعوت نامہ موصول ہوا جب پروگرام میں پرفارم کیا تو حاضرین خوب داد کی اور وہ پروگرام ان کی وجہ شہرت بن گیا میاں محمد بخش ؒ کے کلام پر شہنائی بجائی جس نے ملک کے طول و عرض میں ان کے کام ڈھنکا بجا دیا

۔ اس کے بعد پاکستان کے تمام علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں پر اپنے فن کے ذریعے اپنی شناخت کو قائم کیا۔زندگی کا یاد گار واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھیں ایک بار رسم حنا کی ایک تقریب میں شرکت کیلئے اجمیر شریف جانے کا اتفاق ہوا جب اجمیر شریف پہنچے تو انڈین آرمی نے ہمیں اپنی گاڑیوں میں بٹھایا اور خود پیدل چل کر وہاں پہنچے۔محرم حسین بتاتے ہیں انڈین لوگ فن اور فنکار کی قدر کرنے والے لوگ ہیں

وہ اپنے فنکاروں کی قدر کرتے ہیں اور ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں فنکار کی قدر نہیں کی جاتی۔ میرے لئے وہ لمحہ سب سے قیمتی اور یادگار تھا جب میں نے خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ پر حاضری پیش کی،جب میں روزہ کے اندر داخل ہوا تو وہاں موجود ایک صاحب دوڑتے ہوئے میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے تم آ گئے؟ میرے لئے وہ صاحب انجان تھے جب میں نے پوچھا آپ کون؟تو کہنے لگے ہمیں خواجہ معین الدین چشتیؒ نے حکم دیا تھا میرا ایک مہمان پاکستان سے آرہا ہے انھوں نے مجھے پھولوں کی چادر تحفتاً پیش کی۔ان کے ایک بھائی ساجد حسین مرحوم بھی شہنائی نواز تھے وہ کھڑی شریف عرس کے موقع پر شاہ باغ سے جانے والی ڈالی کے ہمراہ جارہے تھے کہ مندرہ کے مقام پر ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ دم توڑ گئے۔حال ہی میں انھیں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور راولپنڈی کونسل آف آرٹس کی جانب سے شاندار خدمات پر ایوارڈ کے ساتھ ساتھ اعزازی اسناد سے بھی نوازا گیا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں