211

شہید سے غازی تک

گھاٹے جھیلنے پیندے نے
جے ہووے شوق وفاواں دا
3 فروری 1964(بمطابق 19 رمضان 1383ھ) گولیوں کی تڑتڑاھٹ سے قلات کے سنگلاخ اور چٹیل پہاڑ گونج رہے تھے۔شر پسند ملک دشمن عناصر بلوچستان میں ترقی برداشت نہیں کر پا رہے تھے اور جہلاواں سب ڈویژن میں سے گزرتی سہرونہ روڈ کو بننے سے طاقت کے زور پر روک رہے تھے۔جوان سب انسپکٹر ایس ایچ او رمضان کے روزہ کی حالت میں انتہائی کم وسائل کے باوجود حکومت بلوچستان کے احکامات پر عمل درآمد انتہائی ہمت اور بڑے حوصلے سے کروا رہا تھا اور وہ اپنے جوانوں کے ساتھ سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں مسلح ملک دشمن عناصر سے ڈٹ کر لڑ بھی رہا تھا اور اپنی حفاظت اور ذمہ داری میں موجود سول لوگوں کی جان بھی بچا رہا تھا۔15 سرکاری لاٹھیاں،2 عدد 3ناٹ3 رائفل،ایک چرخی دار ریوالور 25/30 گولیاں اور بس کراس فائرنگ کے دوران دونوں فریق ایک دوسرے کو حالات کی سنگینی سے بارہا بلند آواز آگاہ کرتے ہوئے اسلحہ پھینک کر سرنڈر کر دینے کا کہہ رہے تھے مگر پیچھے ہٹنے کو کوئی بھی تیار نہ تھا۔

فرض کی راہ میں ایک کے بعد ایک پولیس کا جوان زخمی اور شہید ہوتا گیا،اسلحہ بتدریج ختم ہوتا جا رہا تھا،مگر مضبوط اعصاب رکھنے والا راجپوت خون کسی طور پر بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ تھا اور وہ کم سے کم نقصان پر اکتفا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جان کو بچاناچاہتا تھا۔بلوچستان کے حالات اور ماحول کو وہ جانتا تھا اور وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ وقتی طور پر اپنی جان بچانے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا صاف مطلب کچھ دیر کے بعد تمام کارواں کو 100 فیصد اذیت ناک موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔اپنی حفاظت میں موجود تمام سول ادارے کے لوگوں کو ایک محفوظ پہاڑی پر منتقل کر کے اپنا فرض تو پورا کر دیا مگر اس دوران اسکے 8 جوان شہید جبکہ بقایا 13 جوان شدید زخمی ہو چکے تھے۔

زخمی ساتھیوں کی مدد کے لیے واپس پلٹا تو ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں سے یکدم گولیوں کی ایک بوچھاڑ نے 35 سال کے پھرتیلے جوان SHO کا سینہ چھلنی کر دیا، وقت کچھ ساعت کے لیے رک سا گیا،گرم خون کے فوارے پولیس وردی میں سے نکل کر مٹی میں جذب ہو رہے تھے اور راجہ بشیر احمد سب انسپکٹر گھات لگائے بیٹھے مسلح ملک دشمن عناصر کی شدید فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہو گیا۔ہزاروں کوس دور پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں ”بھکڑال” کے ایک چھوٹے کچے گھر کے آنگن میں شہید کے بوڑھے ماں باپ‘جوان بیوی اور اس کا 5 سال کا بیٹا(میرے والد) بلکل بے خبر،دنیا کے کاموں میں مصروف تھے۔انکے لیے تو قیامت تب ہی آنی ہے جب یہ خبر کچھ دن کے بعد ان تک پہنچے گی۔16دسمبر1971(بمطابق 13 شوال 1391)گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے تھانہ موہن گنج، بنگلہ دیش گونج رہا تھا۔مکتی باہنی تحریک کے مسلح دستے ہر سو پھیل کر حملہ آور تھے۔21 سال کا نوجوان SHO گزشتہ 17 دن سے تھانہ کے علاقے اور پھر تھانہ کی عمارت کے اندر تک محدود ہوگیا۔

بعدازاں وائرلیس پر حکم ملا کہ فضائی حملہ سے بچنے کے لیے تھانہ کی بلڈنگ خالی کر دو۔آبادی سے دور جنگلوں میں گزرتے دس جوانوں کے ساتھ اسلحہ اور خوراک کی قلت کے باوجود، ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ”مکتی باہنی” کے حملوں میں اپنے زخمی جوانوں کو سہارا دیتا،رات کے اندھیرے میں دھرتی ماں کے سینے میں تاریخ کے گمنام سرفروش شہیدوں کو دفناتا,بچ جانے والے ساتھیوں کے ساتھ میلوں پیدل اور کشتیوں پر ڈھاکا کی طرف سفر کرتارہا۔وائرلیس کنٹرول پر تازہ دم کمک و اسلحہ کے آنے کی لا حاصل امید کے ساتھ مکتی باہنی اور ہندوستانی فوج سے دست بدست لڑتا بہڑتا آخرکار ایمونیشن ختم اور ”فال آف ڈھاکہ” ہونے پر راجہ منور حسین، SHO تھانہ موہن گنج،ضلع میمن سنگھ 16 دسمبر 1971 کو اپنے تھانے موہن گنج سے لگ بھگ 200 کلو میٹر دور ”پولیس لائن راجڑ باغ” میں ہندوستانی فوج کے میجر ورما کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جنگی قیدی بن گیا تھا۔16 دسمبر سے 3 جنوری تک 18 دن راجڑ باغ پولیس لائن میں قید رہنے کے بعد بذریعہ اسٹیمر براستہ نارائین گنج اور فرید پور، ہندوستان منتقل کر دیا گیا۔

ہزاروں کوس دور پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے گاؤں بھکڑال میں بوڑھے ماں باپ،نوبیاہتا بیوی،شہید بھائی کی بیوہ،یتیم بھتیجے اپنے گھر کے اکلوتے ریڈیو کے بٹن دبا دبا کر جنگی قیدی کی خبر مسلسل 2 سال تک ایک انجانے خوف کے ساتھ تلاش کرتے رہے کہ گھر کا آخری بیٹا زندہ بھی ہے یا نہیں۔آخر 10 جنوری 1974 کو ”گوالیار کیمپ نمبر 60” میں جوانی کے 2 سال ہندوستان میں 90 ہزار جنگی قیدیوں کے ساتھ جنگی قید کاٹنے کے بعد براستہ واہگہ بارڈر غازی بن کر گھر کو لوٹا۔بعد اذاں محکمانہ ترقی کرتے ہوئے پنجاب کے مختلف اضلاع میں SSP کے رینک پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے سال 2009 میں ریٹائر ہوئے اور اس وقت الحمدللہ اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔11 اکتوبر 2013(بمطابق 6 ذالحج 1434)گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گوجرخان کی وارڈ نمبر 8 کی اندرون آبادی گونج اٹھی۔فجر کی اذان کے ساتھ ہی بدنام زمانہ منشیات فروش شیخ ہارون کے گھر پر ریڈ کیا ہی تھا کہ گولیوں کی بوچھاڑ نے مجھے شدید زخمی کر دیا اور اپنا پسٹل ہاتھ سے گر گیا۔شیخ ہارون مجھ پر سیدھے فائر کر رہا تھا اور میں دیوار کے ساتھ لگا ہوا خالی ہاتھ، انتہائی بے بسی میں اپنے اوپر دیوار میں لگنے والی بے شمار گولیوں سے اکھڑ کر گرنے والے سیمنٹ اور ریت سے گولیوں کی تعداد کا اندازہ کر رہا تھا۔

ایک رات قبل شریک حیات کی پھپھو انتقال کر گی تھیں اور رات فون پر اسکو اس بحث اور وعدہ کے ساتھ جہلم بھجوایا تھا کہ میں صبح سب سرکاری کام چھوڑ کر جنازہ پر گوجرخان سے سیدھا آونگا اور وہ میرے ڈیڑھ ماہ کے بیٹے کو گود میں لیکر میت والے گھر میں میرا انتظار کر رہی تھی جبکہ دوسری طرف میں صبح ساڑھے چھ بجے THQ ہسپتال گوجر خان کے ایمرجنسی وارڈ کے بیڈ پر جسم سے نکلتے ہوئے خون کے فواروں سے ہونے والی نقاہت اور ہسپتال میں سپرٹ کی مخصوص بو سے آہستہ آہستہ غنودگی میں جانے کے باوجود ذہنی طور پر اس پریشانی میں مبتلا تھا کہ مجھے گولیاں لگنے کی خبر میرے گھر والوں تک نہ پہنچے۔

بہرکیف میرے جوانوں نے شیخ ہارون کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،جس میں وہ گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو کر منشیات کی بھاری کھیپ کے ساتھ نیم مردہ حالت میں گرفتار ہوا۔(بعدازاں شیخ ہارون سال2021 میں اسی طرح کے پولیس مقابلے میں پار ہوا)۔مجھے شدید زخمی حالت میں THQ گوجرخان سے DHQ ہسپتال راولپنڈی پہنچایا گیا۔ جہاں مجھے ہنگامی طور پر ایک کے بعد ایک کر کے خون کے 4 یونٹ لگائے گئے۔تاہم ڈاکٹرز کی محنت،والدین کی دعاؤں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالی کی ذات نے دوسری زندگی دی جسکا میں بہت شکر گزار ہوں۔یہ تین واقعات ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”بھکڑال کے ایک مڈل کلاس پولیس گھرانے کے ہیں۔

اپنے علاقہ کے فوجی خاندانوں کی قربانیوں پر لکھنا شروع کرتا تو صفحے اور سیاہی کم پڑ جاتی۔قصہ مختصر 19 رمضان المبارک 1964 کو میرے دادا جان،راجہ بشیر احمد سب انسپکٹر صوبہ بلوچستان میں شہید ہوئے جنکی قبر سرکاری طور پر کوئٹہ میں تیار ہو چکی تھی مگر آفرین ہے میرے بوڑھے پردادا راجہ نعمت اللہ کے حوصلے کو، جو خود کوئٹہ جا کر سرکاری ٹرک کے ذریعے 35 سال کے جوان شہید بیٹے کی میت بھکڑال واپس لے کر آئے اور پھر ٹھیک 7 سال کے بعد اسی بوڑھے شخص کا دوسرا سب سے چھوٹا بیٹا راجہ منور حسین سب انسپکٹر پنجاب پولیس راولپنڈی ریجن سے رضا کارانہ طور پر بنگلہ دیش میں تعیناتی کے دوران 1971 میں پاک ہندوستان جنگ لڑتے ہوئے دشمن ملک میں 2 سال کی جنگی قید میں چلا گیا۔

بعد اذاں راجہ بشیر احمد شہید کا پوتا اور پاک فوج کے کپتان(ر)راجہ یوسف کا نواسہ یعنی کہ راقم 2013 میں گوجرخان میں خود پولیس مقابلہ میں شدید زخمی ہوا۔شہید سے غازی تک کا یہ سفر 60 برس پر محیط ہے۔اس سفر میں خواتین خانہ کا حوصلہ قابل تعریف ہے۔ جنہوں نے شہید سے غازی کے اس سفر میں زمانے کی تمام مشکلوں میں بھی حوصلہ رکھا اور زندگی میں آنے والے طوفانوں میں چٹان بن کر کھڑی ہوئی اور ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔

شہید سے غازی کے اس سفر میں کوئی شدید سرکاری مجبوریاں یا دباؤ بھی ہرگز نہ تھا بلکہ یہ تو عشق،جنون،ہمت،بہادری،ثابت قدمی اور ڈٹ کر کھڑے ہو جانیکی بازی تھی جسکو دادا جان نے خود منتخب کیا تھا اور آخری وقت تک ہتھیار ڈالنے کے بجائے لڑ مرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ”جان” تو دے دی مگر اپنی” آن” کو رکھ لیا۔گرتے ہوئے مکان کی چھت کے نیچے سر رکھنا آسان کام نہیں ہے اور اس کی زندہ مثال دادا جان کے چھوٹے بھائی راجہ منور نے1971 میں بطور سب انسپکٹر راولپنڈی ریجن پولیس کے دربار میں اس وقت بنگلہ دیش جانے کا چیلنج رضا کارانہ طور پر خود قبول کر کے قائم کی جب تمام افسران بنگلادیش کے مخدوش اور بدترین خانہ جنگی حالات کی وجہ سے دربار میں کنی کترا رہے تھے۔

جبکہ اس وقت انکے اپنے گھر کے حالات یہ تھے کہ گھر میں ضعیف والدین، بیوہ بہابھیاں اور یتیم بچوں کے آخری کفیل خود تھے اور غربت و افلاس نے گھر پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے جبکہ خاکسار نے باوجود اس بات کے جانتے ہوئے کہ شیخ ہارون گوجرخان میں قبل ازیں بھی بہت سے پولیس افسران کو گولیوں اور چاقو سے زخمی کر چکا ہے اور پولیس افسران اسکے گھر پر ریڈ کرنے سے کتراتے ہیں، اسکو نکیل ڈالنے کے لیے صبح کی روشنی پھوٹنے سے پہلے اپنی ٹیم کے ساتھ چل نکلا اور گھر کے اندر سب سے پہلے خود داخل ہوا اور بعداذاں خود بھی شدید زخمی ہوا اور اسکو بھی منشیات کی کھیپ کے ساتھ نیم مردہ حالت میں گرفتار کیا۔دوستو! بحری جہاز ہمیشہ سے سمندر کنارے بندرگاہوں پر محفوظ ہوتے ہیں مگر بحری جہاز بندرگاہ پر کھڑے ہونے کے لیے نہیں بناے جاتے بلکہ انہوں نے گہرے پانی اور سمندری طوفان کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔

اسی طرح زندگی میں رسک اور خطرات کے خوف سے بھاگ کر چھپا نہیں جا سکتا۔آپ پولیس کی نوکری صرف اچھے وقت کے لیے نہیں کرتے بلکہ یہ بھی ہر وقت ذہن میں ہوتا ہے کہ مشکل وقت اور فیصلے بھی آتے ہیں۔جن میں مشکل فیصلوں کا وزن بھی اٹھانا پڑتا ہے۔بسا اوقات بہت سے مشکل وقت اور آنے والے وقت کی پریشانی کا ادراک ہونے کے باوجود آپکو بہت سے مشکل فیصلوں کا وزن اس لیے بھی اٹھانا پڑتا ہے کہ آپ نے خود کو اکیلے میں وفاداری کے آئینے میں دیکھنا اور جرات کے ترازو میں تولنا بھی ہوتا ہے اور الحمداللہ یہ پیمانے میرے خاندان کو نسل در نسل صاف ضمیر اور خمیر کے ساتھ وراثت میں بھرے ہوئے ملتے ہیں۔

پنجاب پولیس میں ایسے بہت سے افسران اور جوانوں کی مثالیں موجود ہیں جو مشکل وقت میں ثابت قدم اور ڈٹ کر کھڑے رہے۔ وقت کی یہ خوبی ہے کہ اچھا یا برا بحرحال گزر ہی جاتا ہے۔اپنی مختصر سی 15سالہ سروس میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہوں اور راولپنڈی کے مختلف تھانہ جات میں بطور تفتیشی آفیسر اور SHO کام کیا ہے اس دوران بم دھماکے کے زخمیوں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئی لاشوں سے لے کر، نالے سے نکلی ہوئی بوسیدہ لاشوں کو اٹھانے تک۔پولیس ناکوں پر اپنے ساتھیوں اور جوانوں کو زخمی اور شہادت کی حالت میں اٹھانے سے لیکر انکو اپنا خون دینے تک،شہید ساتھیوں کا بلا خوف و خطر خود مدعی بننے سے لے کر، انکو لحد میں اتارنے تک اور پھر سامنے نظر آنے والے خطرات کو مول کر شہادتوں کا حساب چکتا کرنے تک،واردات کے دوران ریپ اور قتل کرنے والے ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے لیکر منشیات فروشوں کو نکیل ڈالنے تک،اندھے قتلوں کو کھوج لینے سے لیکر سماج کے ناسوروں کا آپریشن کرنے تک۔

مختصر یہ کہ خاک و خون کے اس سفر میں میرے خاندان نے الحمدللہ اپنا خون دے کر اور سماج دشمن کا خون لیکر اس محکمہ کا قرض ادا کرنے کی ادنی سی کوشش ضرور کی ہے اور حاصل وصول ہمیشہ اپنی خود داری،عزت نفس اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے عزت و وقار کا اضافہ ہی رہا۔ اس دوران ہونے والی تمام غلطیاں‘ ناکامیاں،سستی، کاہلی،کوتاہیاں اور نادانیاں میری اپنی ذات کی کمزوری کی وجہ سے ہوئی ہیں،جبکہ تمام کامیابیاں،کامرانیاں اور عروج میرے ساتھ کام کرنے والی بہادر سپاہ کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں۔ناکامی اور کامیابی کے اس ملے جلے سفر میں صرف نیک نیتی،خلوص اور محکمانہ وفاداری ہی میرا حاصل وصول رہا ہے،جسکے لیے اپنے والدین،بہن بھائی اور اولاد کی جان و مال کی پرواہ نہ کی ہے۔چاند رات،عید،شب برات،گرمی،سردی،بہار کے لطف کو چھوڑ کر اپنے محکمہ کے لیے کام کیا۔لوگوں کی باتیں،بے جا تنقید،تبصرے اور شکایات کو برداشت کیا۔اپنے بچوں کی معصوم شرارتوں کے لیے وقت نہیں نکال سکا۔رات کی نیند کو بتدریج کم کر کے صبح چند گھنٹے نیند تک آ گیا۔

مگر دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی محکمہ پولیس نے میرے خاندان کی شان بنائی ہے اور اسی محکمہ نے عزت اور روزگار دیا۔ آج بھی اگر میرے محکمہ کو میری ضرورت ہوئی تو تمام مصلحتوں سے بالا ہو کر بلند و بانگ دعوں سے ہٹ کرخاموشی مگر مظبوطی سے اگلے محاذ پر نہ صرف کھڑا ہونگا بلکہ کھڑا ہوتا ہوا نظر بھی آونگا۔

آج 11 سال کے بعد 2024 میں محکمہ پنجاب پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور صاحب نے اس بہادری،وفاداری اور قربانی کے اعتراف میں خاکسار کو” پولیس غازی ”کے اعزاز سے سرکاری طور پر نواز کر مزید حوصلہ بڑھایا ہے اور ساتھ 2 لاکھ کا چیک بطور انعام بھی دیا ہے۔الحمداللہ پولیس شہید اور پولیس غازی کا پوتا بھی آج ”پولیس غازی“ہے،جسکا نام انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کے دفتر میں غازیوں کے نام سے منسوب کی گئی دیوار پر لکھا گیا ہے ہے۔

اس سے بڑھ کر اعزاز کے لیے اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے؟ آج غازی اعزاز عظیم اپنا یہ اعزاز پنجاب پولیس کے“شہداء“ کے نام کرتا ہے اور حسب سابق انعام میں دی ہوئی رقم اپنی خوشی سے ”شہدائے پنجاب پولیس“کے خاندانوں کو انتہائی عقیدت سے ہدیہ کر رہا ہے۔زندگی میں اس سے قبل سال 2008 میں بھی دوران ڈکیتی مزاحمت پر مجھے ڈکیتوں سے گولیاں لگی ہیں مگر 11 اکتوبر 2013 کو سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران لگنے والی منشیات فروش کی گولیاں آج بہت تسکین، مزہ اور سواد دے رہی ہیں۔گولیاں لگنے کے بعد آپریشن در آپریشن ہونے سے جسم پر پڑنے والے بدنما داغ آج خود کو بہت بھلے محسوس ہو رہے ہیں۔آج معلوم ہو رہا ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر اچھے کام کی تعریف کتنا حوصلہ بڑھا دیتی ہے اور جوان کا سینہ کتنا چوڑا ہو جاتا ہے۔میں آج اپنے تمام سینئر افسران اور بالخصوص اپنے ساتھ کام کرنے اور ساتھ کھڑے ہونے والی تمام سپاہ کا شکر گزار ہوں۔

جنہوں نے میری راھنمائی کی اور ہر مشکل میں میرا ساتھ دے کر میرا حوصلہ بڑھایا۔آج اس خوشی اور سرشاری کے خاص موقع پر اپنے آپ سے ایک عہد بھی کرتا ہوں کہ اس نوکری کا حصہ رہوں یا نہ رہوں لیکن اپنے پاکستان کے لیے کسی بھی قربانی سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔رات کے اس آخری پہر میں‘ میری کاتب قدرت اور کاتب تقدیر سے انتہائی عاجزی سے دعا ہے کہ جو زندگی گزر گئی ہے اس پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور جو زندگی باقی ہے اس میں اپنی تمام بشری کوتاہیاں اور غلطیوں پر تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔اے میرے مالک تو اس ملک پاکستان کو ہمیشہ آباد رکھنا اور مجھ پر اور میری نسلوں پر اپنا خصوصی فضل وکرم کرتے ہوئے مزید ہمت دے کہ اپنے خاندان،محکمہ پولیس یا کسی بھی میدان میں خاص طور پر پاکستان کی نیک نامی کا باعث بنیں اور وطن کی خاطر کسی بھی وقت قربانی کی ضرورت پڑے تو اگلی صف میں ثابت قدم اور ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہمّت اور توفیق دے۔ آمین۔

میں ڈرا نہیں‘میں دبا نہیں
میں جھکا نہیں‘میں بکا نہیں
جسے میں نے تم سے کہا نہیں
جسے تم نے مجھ سے سنا نہیں

میرا شہر مجھ پہ گواہ ہے
کہ ہر ایک عہد سیاہ میں
وہ چراغ راہ وفا ہوں میں
کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں
کاغذ اور قلم کے ساتھ رشتہ استوار کرتے ہوئے پنجاب پولیس کی قربانیوں پر روشنی ڈالنے کی ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔لگ بھگ 2 سال قبل ”بوہڑ،بن اور بہکڑال” کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جسکو کافی پذیرائی ملی اور اسی حوصلے کی وجہ سے مزید لکھنے کی ہمت ہوئی۔محکمانہ مصروفیات کی وجہ سے لکھنے کا وقت بہت کم ملتا ہے اور بہت وقت کے بعد اس تحریر کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔اپنی نوکری کے بہت سے واقعات کو اس خواہش کے ساتھ ایک ڈائری پر محفوظ کرنا شروع کیا ہوا ہے کہ شاید زندگی میں کسی وقت پر ان تمام واقعات کو ایک کتاب کی شکل دینے میں کامیاب ہو جاؤں۔بہرکیف اس کالم میں کسی بھی قسم کی غلطی یا کمی بیشی کے لیے قبل از وقت معذرت خواہ ہوں۔اپنی قیمتی رائے سے ضرور اگاہ کیجئے گا۔شکریہ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں