302

حاجی صوبیدار کرم داد

24 مارچ 2021 شام کو ہمارے شہزادے ارسلان کا فون آیا کہ مرزا صاحب ابو جی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں میری زبان سے نکلا اے میرے اللہ، چند دن پہلے ہم۔اپنے بھائی ملک سپارس صاحب مرحوم رحمہ اللہ کی جدائی کا صدمہ برداشت کر کے چکے تھے اب ایک صدمہ برداشت کر رہے تھے ہمارے بھائی حاجی صوبیدار کرم داد رحمتہ اللہ علیہ پیدائش 1940 ڈھیری یوسی چکری میں پیدا ہوئے اور تاریخ وفات 24 مارچ 2021 ہے۔ آج انکی تیسری برسی ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور مڈل کے بعد آرمی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں یتیمی کا سامنا کیا انکے

اور انکی چھوٹی ہمشیرہ اور بھائی فضل داد رحمتہ اللہ علیہ کی پرورش انکے تایا شیر جنگ نے کی اور انکو اپنے بچوں سے بھی عزیز رکھا اور یتیمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ مرحوم حاجی صوبیدار کرم داد رحمتہ اللہ علیہ ایک دینی، عسکری، سماجی اور انتہائی ملنسار اور خوش اخلاق شخصیت تھے۔ وہ نہ صرف میدان جنگ کے فاتح اور غازی تھے بلکہ گفتار و کردار کے بھی غازی تھے۔ میدان جنگ کو جب بھی یاد کرتے تھے تو اس طویل عمری میں بھی انکا خون کھول اٹھتا تھا مگر جب اہل و عیال، عزیز و اقارب کیساتھ بات کرتے تھے تو انہتائی اخلاق اور
عجزو انکساری سے۔ حسن سلوک اور اخلاق انکا طرہ امتیاز رہا اور انکی رحلت کے بعد آج تیسرا سال ہو چلا ہے مگر جب کوئی بھی انکا ذکر کرتا ہے تو انکی اس صفت کا تذکرہ ضرور کرتا ہے۔ بڑے ہوں یا بچے، سبکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ رشتیداروں سے بھی اکثر معاملات میں خندہ پیشانی سے پیش آتے اور بڑی سے بڑی غلطی کو سبیل اللّٰہ در گزر کر دیتے۔ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن ایمانداری اور امانتداری میں بھی انکا اپنا الگ مقام تھا۔زندگی کا سفر یتیمی اور کمپسری سے شروع کرنے والے اس شخص کا کردار ایسا تھا کہ لوگ انکے پاس اکثر اپنی امانتیں محفوظ رکھتے تھے۔ خصوصاً اسوقت جب بنک اتنے عام نہیں ہوئے تھے تو موٹروے کیمپ چکری کے کئی ملازمین اپنی پوری پوری تنخواہیں انکے پاس رکھ کر محفوظ سمجھتے تھے۔ ایک بار انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک شخص جو اس کیمپ میں کام کرتا تھا اسنے میری دوکان کا ادھار دینا تھا، جب تمام لوگ یہاں سے کام ختم ہونے کے بعد جارہے تھے تو وہ بھی گاڑی میں سوار ہو گیا مگر بقول اس شخص کے، اسکو سکون نہیں آیا اور گاڑی سے اتر گیا۔ اگلی صبح جب اپنے واجبات ادا کرنے آیا تو یہ قصہ سنایا۔
ایمانداری کا صلہ اور اللّٰہ سے مانگنے پر اسکی عطاء کا ایک واقعہ کچھ ہوں سنایا کہ ایک بار انکا بڑا بیٹا محمد وقاص جب تقریباً ایک ڈیڑھ سال کا رہا ہوگا تو اسکو چائلڈ اسپیشلسٹ نے ایک ایمپورٹڈ دودھ تجویز کیا، ظاہر ہے مڈل کلاس کیلئے مہنگائی ہر دور کا مسلۂ رہا ہے اور گھریلو اخراجات کے علاوہ اس طرح کے اخراجات مزید پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ تو وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن جب میں ڈیوٹی سے واپس گھر آیا تو میں نے کھانے سے پہلے نماز پڑھنی شروع کردی جو کہ میری روٹین تھی۔

کیونکہ کھانے کے بعد نیند کا غلبہ ہونا ایک فطرتی عمل ہے۔ چنانچہ میں نے مامعول کے مطابق اپنی نماز مکمل کی اور نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے جب میں نے اللہ سے یہ دعا مانگ کہ یا اللہُ میرے اخراجات کا کوئی بندوبست کر یا کوئی ایسا نیک وسیلہ پیدا کردے کہ میں اپنے اضافی اخراجات کو پورا کر سکوں۔ کیونکہ اولاد سے محبت ایک فطرتی جذبہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر کے ناجائز طریقے سے اپنے اخرجات پورے کروں۔ یہ دعا مانگتے ہوئے میں ساتھ ساتھ رو بھی رہا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے خود ہی میرے دل میں سکون پیدا کیا، میں نے کھانا کھایا اور سو گیا۔ ایک دو دنوں بعد میرے بیٹے کو حتیٰ کہ بھینس کا دودھ بھی راس آ گیا۔ کہاں امپورٹڈ ملک فارمولا اور کہاں بھینس کا دودھ, بس یہی اس رب عظیم کے ہونے کی دلیل ہے۔ آپ اس سے اپنی تکلیف میں مانگ کر کے تو دیکھیں وہ عطا کرنے والا غفور الرحیم رب کریم ہے۔حاجی صوبیدار کرم داد صاحب رحمۃ اللہ نے آرمی 1963 میں جوائن کی۔انفینٹری کور پنجاب رجمنٹ سنٹر مردان میں ملڑی ٹریننگ حاصل کی. مختلف عسکری محاذوں پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دی جن میں سے کچھ قابل ذکر درج زیل ہیں۔1964 میں آپریشن جبر الٹر کشمیر کا حصہ رہے۔1965 کی جنگ کے دوران 14فسٹ پنجاب یونٹ کا حصہ رہے اور کشمیر میں چھمب جوڑیاں کے محاذ پر جنگ لڑی۔1971 کی جنگ کے دوران لاہور کے محاذ پر لڑے۔1972 میں ایبٹ آباد پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ڈرل اینڈ ویپن انسٹرکٹر رہے۔ 1974 لاہور میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر سکیورٹی دستے کی ذیلی ٹیم کے انچارج رہے۔1975 میں بطور سینئر انسٹرکٹر پنجاب رجمنٹ سنٹر مردان رہے۔1976 مری کلڈنہ سکول ایڈم کورس کیا جسمیں ملڑی ایڈمنسٹریٹریشن اور قانون کا کورس امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔1982 تا 1988 برگیڈ ایڈم JCO کوہاٹ رہے۔اگر ان کے اس عزازات کی بات کی جائے تو کافی میڈلز اور شیلڈز ہیں مگرسر فہرست انکے کمائے گئے وار میڈلز ہیں۔ جن کی ترتیب درج زیل ہے۔تمغہ دفاع آپریشن جبرالٹر کشمیر 1964‘ستارہ حرب اور تمغہ جنگ 1965‘ستارہ حرب اور تمغہ جنگ 1971‘امتیازی سند آرمی چیف 1989سماجی خدمات کی بات کی جائے تو انہوں نے بلا تفریق فرقہ سماجی خدمات انجام دیں۔ جن میں زکوٰۃ کمیٹی کے ممبر رہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر صاحب ضرورت اور ایسے لوگ جو سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے زکوۃ نہیں لینا چاہتے تھے ان کو ان کا حق پہنچایا۔گاؤں میں موجود سکولوں کی حالت کو بہتر کرنے کے لیے مقامی طور پر کچھ کمیٹیاں ترتیب دی گئی ان میں بطور فنڈ انچارج اور ایڈمنسٹریشن کی ٹیم کا حصہ رہے۔گورنمنٹ پرائمری سکول فار گرلز کو مڈل بنانے کے لیے اہم کام سر انجام دیا۔ اسی طرح گاؤں کے بوائز سکول کو مڈل کلاس تک لے جانے کے لیے تگ و دو کی۔ اور دونوں سکولوں کی کمیٹی کے سرگرم رکن رہے۔

اپنی ایمانداری اور امانت داری کی وجہ سے دوستوں احباب نے پرزور درخواست کی کہ آپ مسجد کمیٹی کے فنڈ انچارج کی خدمت کو سنبھالیں۔ایک چھوٹی سی مگر دینی اور اصلاحی لائبریری کا قیام کیا جسمیں قرآن کریم کی تفسیر، احادیث کی کتب، اور دیگر اسلامی مواد شامل ہے۔ مزید برآں اس میں آڈیو اور ویڈیو مواد بھی شامل ہے۔ اسکے علاؤہ اکثر اوقات صاحب ضرورت کی مالی اخلاقی اور قانونی امداد کرتے رہتے تھے۔ علاقے میں کوئی بھی یتیم یا بیوہ ہو یا کسی فوجی کے لواحقین ہوں تو انکے حق کے حصول کیلئے چاہے وہ پینشن ہو یا کوئی گرانٹ یا کوئی بھی ایسا مسئلہ ہو تو انکے لیئے درخواستیں لکھنا، قانونی طور مشاورت دینا اور حتیٰ کہ اپنے ذاتی خرچ پر انکے ساتھ چل پڑتے۔1989 میں ارمی سے ریٹائرمنٹ کی۔ ان کی سروس 28 سال پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد رزق حلال کمانے کے لیے انہوں نینومبر 1989 آڑھت اور کریانہ تھوک کا کاروبار شروع کیا۔ کاروبار میں ان کی ایمانداری کی مثال لوگ دیا کرتے تھے۔ مگر آڑھت کے لیے ان کو گھر سے دور رہنا پڑتا تھا جس کیلئے تین تین چار چار دن گھر سے باہر گزر جاتے۔ پھر اپنی اولاد کی تربیت کے لیے انہوں نے اس کاروبار کو خیرباد کیا۔اور1997 میں کپڑے کا کاروبار شروع کیا۔ ریٹائر منٹ کے بعد سابق امیر جماعت اسلامی تحصیل راولپنڈی چوہدری نذیر صاحب رحمۃ کے ذریعے جماعت اسلامی کے رکن بنے پھر ساری زندگی اس عہد کی پاسداری اور پابندی کی کسی اجتماع اور میٹنک سے غیر حاضر نہیں ہوئے ارمی۔کی سروس کے دوران ہی وہ سید مودودی رح کی تفسیر تفہیم القرآن کا مطالعہ کر چکے تھے

فیصل مسجد کے اجتماع عام، قرطبہ کے اجتماع عام اور اضاخیل کے اجتماعات عام میں شریک ہوئے ہر موقع پر جماعت اسلامی کو دل کھول کر مالی مدد کرے تھے وہ صاحب مطالعہ شخصیت تھے کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ مسلسل کرتے رہتے تھے تفہیم القرآن کا مطالعہ مستقل کرتے تھے، بہت ہی مہمان نواز تھے جب بھی ان کے گھر جائیں وہ زور دیتے تھے کہ کھانا کھا کر جائیں اکثر زمہ داران ان کے مہمان بن چکے تھے ایک دفعہ ہمارے بزرگ راہنما اور مربی سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم جناب حافظ محمد ادریس صاحب ان کے مہمان بن چکے ہیں حاجی صاحب کے دو بیٹے محمد وقاص اور ارسلان ہیں دونوں نے باپ کی بہت خدمت کی۔محمد وقاص کرا چی پاکستان آئر فورس میں جاب کررہیں ہیں اور ارسلان گاؤں میں ہوتے ہیں حالیہ الیکشن میں ڈھیری سے چند ووٹ جماعت اسلامی کو ارسلان کی وجہ سے ہی ملے۔2003 میں اللہ نے ان کو اپنے گھر بلایا اور تمام تر حقوق اور فرائض پورے کرنے کے بعد بفضلِ خدا حج کی سعادت حاصل کی۔اپنی زندگی میں انہوں نے رزق کے حلال سے اپنی اولاد کی شادیاں کی ان دونوں بیٹوں کے گھر بنائے اپنی بیٹیوں مثالی طریقے سے اپنے گھروں میں رخصت کیا

۔ اپنی وفات سے دو سال قبل تمام تر جائیداد اور اثاثوں کا منصفانہ تقسیم کرنے کے بعد اور وصیت ترتیب دینے کے بعد فارغ و بال ہو گئے۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ ایک ایسا شخص جو انصاف پسند تھا اپنی وفات سے پہلے اپنے ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو گیا۔حال ہی میں ہوئی اپنے بھائی کی وفات کے بعد وہ اکثر اداس اور غمزدہ رہتے تھے۔ اپنے بھائی کی وفات کے صرف دو مہینوں کے وقفے کے بعد اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ 24 مارچ 2021 عصر کی نماز انہوں نے اپنی کار میں پڑی جب وہ اسلام اباد جی 13 میں اپنا چیک اپ کروانے جا رہے تھے۔ خوش قسمتی کی بات کہ ان کے ساتھ ان کے دونوں بیٹے محمد وقاص اور ارسلان تھے۔ کلینک پہنچنے پر انہوں نے کہا کہ میں گاڑی میں انتظار کرنا چاہتا ہوں۔ اور بس اسی دوران فرشتہ اجل نے ان کی روح قبض کر لی۔ کیا شاندار موت تھی ادھر مغرب کی اذان شروع ہوئی اور حی الفلاح تک پہنچتے پہنچتے ان کا دم نکل گیا۔ اور اپنے دونوں بیٹوں کے ہاتھوں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 24 مارچ کا سورج غروب ہوتے ہی اللہ کا یہ سپاہی خالق حقیقی سے جا ملا۔اللہ کریم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
مومنوں میں سے (بہت سے) مَردوں نے وہ بات سچ کر دکھائی جس پر انہوں نے عہد کیا تھا، پس ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا ہے اور ان میں سے کوئی (اپنی باری کا) انتظار کر رہا ہے، مگر انہوں نے (اپنے عہد میں) ذرا بھی تبدیلی نہیں کی۔کاش ایسی موت تمام اہل ایمان کو میسر ہو آمین ثم آمین۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں