262

شیراز طاہر‘پوٹھوہاری افسانہ نگار

میں نے جب 15نومبر 2004 کو ادبی تنظیم بزم سخن گوجر خان کی بنیاد رکھی اور اس کے زیر اہتمام پہلے محفل مشاعرہ کا آغاز زیر صدارت نعت گو شاعر عابد سعید عابد مش انعقاد گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 2گوجر خان کیا تو اس محفل مشاعرہ میں اردو اور پوٹھوہاری کے افسانہ نگار جناب شیراز طاہر سے ملاقات ہوئی آپ نے یکم نومبر 1946کو حکم داد کے آنگن گاؤں موہڑہ غوریاں مندرہ میں آنکھ کھولی ایف اے تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد ذریعہ معاش کی تلاش میں مصروف ہو گئے ان کی افسانہ نگاری پر بات کی جائے تو افسانہ ان کے خمیر میں اپنے رنگ بکھیر رہاتھا آپ کے ذوق اور افسانہ نگاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا ہے

کہ آپ کی ادبی بیٹھک اردو کے رشید امجد،امان اللہ، ہمظفری پاشا،شعیب خالق،حمید شاہد احمد داؤد مظہر اسلام کا نام جیسے معتبر اور معروف افسانہ نگاروں سے تھی اور ان کے سطح کے افسانے بھی لکھتے تھے ان سے چند ملاقاتوں کے بعد یہ راز بھی حیرت کا باعث بنا کہ آپ پوٹھوہاری زبان میں بھی بہت خوبصورت افسانے لکھتے ہیں اور اپنی پوٹھوہاری زبان سے والہانہ محبت کی وجہ سے اردو افسانہ نگاری میں دلچسپی بہت کم ہو گئی ہے آپ کا اوڑھنا بچھونا پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان و ادب ہی بن گیا تھا پھر یہ بات بھی باعث حیرت دیتی تھی کہ آپ اردو افسانہ نگاری کے بڑے میدان کو چھوڑ کر پوٹھوہاری افسانہ نگاری میں خود کو غرق کر دیا تھا

جس کا خطہ پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان کے لکھاری مقروض ہیں اردو کے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی طرح آپ پوٹھوہاری زبان کے اہم اور بڑے افسانہ نگار ہیں پوٹھوہاری افسانوں میں خطہ پوٹھوہار کی زبان اس کے کلچر تہذیب کی مکمل ترجمانی ملتی ہے ان کے بڑے سے بڑے افسانے بھی ہمارے گلی محلے اور گاؤں سے جنم لیتے ہیں اور ان افسانوں کے کردار بھی ہماری آنکھوں کے سامنے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور اکثر کرب کے سمندر میں غوطے کھاتے اپنے وجود کا اظہار کرتے محسوس ہوتے ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے پھر جب ان افسانوں میں محاورے استعارے ضرب المثال علامتیں تشبیہات پوٹھوہار کے ہونے کی وجہ سیکھنا پڑتا ہے کہ یہ سونے پر سہاگہ کے مترادف ہے اسی وجہ سے آپ کو پوٹھوہاری افسانہ نگاری میں صاحب اسلوب افسانہ نگار کہا جاتا ہے

اکادمی ادبیات اسلام آباد اور انڈس کلچر اسلام آباد میں قومی سطح پر پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کے پروگراموں میں بطور پوٹھوہاری افسانہ نگار شرکت کرتے رہتے ہیں اور اپنی زبان میں نہ صرف اپنے افسانے پیش کر تے رہے ہیں بلکہ پوٹھوہاری زبان اور پوٹھوہار کا مقدمہ بھی بے لوث ہو کر لڑتے رہے اور جیسے بھی حالات ہوئے ان کا ڈٹ کر سپاہی بن کر دفاع کیا۔ اگر ان کے ساتھ گزرے قیمتی وقت کو لفظوں میں ذکر کیا جائے تو بزم سخن گوجر خان کی 50 ماہانہ تنقیدی نشستوں اوربزم کے مشاعروں اور کتابوں کی تقریب رونمائی و پذیرائی اور اس کے ساتھ شعرا ادبا کے ساتھ شامیں منعقد کرنے جیسے اہم پروگراموں میں شرکت کرتے اور اس سے بڑھ کر تخلیقات پر تنقیدی اصلاحی گفتگو کرتے اور اصلاحی گفتگو تو زیادہ ترجیح دیتے تاکہ رائٹر مایوسی کے سیاہ بادلوں میں اپنا چہرہ چھپا نہ لے آپ خود بھی اپنے افسانے تنقید کے لیے پیش کرتے تھے

بزم سخن گوجر خان کے ایک سال بطور صدر اپنے فرائض احسن انداز سے پیش کر چکے ہیں مشال تنظیم مندرہ پوٹھوہاری ادبی سوسائٹی راولپنڈی پوٹھوہاری رائٹرز کلب راولپنڈی میں بطور میزبان متحرک رہے ہیں ان کے زیر اہتمام پروگراموں میں اپنے ساتھ ادبی دوستوں کو لازمی شرکت کی دعوت دیتے تاکہ پیغام ادب اور پیغام محبت دور دور تک پھیلے قدیم اور غیر سیاسی اور مذہبی حلقوں میں حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی اسلام آباد انجمن ادب پوٹھوہار واہ کینٹ کی تنقیدی نشستوں میں بھی اپنے افسانے پیش کرتے رہے ہیں اور کئی تنقیدی نشستوں کی صدارتوں کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے پھر انجمن ادب پوٹھوہار واہ کینٹ کے خاص پروگراموں میں آپ کی شرکت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ اگر پڑاؤ روات کا ذکر کیا جائے تو وہاں پر ذہین احمد،علی راز،اخلاق انجم،اعظم احساس،یاسر کیانی اور راقم الحروف مختلف ہوٹلوں پر گھنٹوں اردو اور پوٹھوہاری زبان و ادب پر گفتگو کرتے رہے ہیں

اور پڑاؤ کے زیر اہتمام مشاعروں اور تنقیدی نشتوں میں آپ کے بغیر محفل ادھوری ہوتی تھی۔ سلیم اختر میموریل لائبریری گوجر خان میں بزم سخن گوجر خان کے دس سال سے زۂد ادبی محافل مشا عر ے اور تنقیدی نشستیں شاعروں کے ساتھ شامیں اور کتابوں کی تقریب رونمائی اس لائبریری میں ہوئیں شیراز طاہر ہر محفل میں بطور میزبان شرکت کرتے اس کے علاوہ وہ ہفتے میں تین چار بار لازمی لائبریری آتے یہاں پر ماجد وفا عابدی شاہد لطیف ہاشمی (لا ئبر یر ی کے روح رواں)،طاہر ہمدانی، رفعت محمود مرزا،احمد اصغر راجہ،ڈاکٹر شمسی، اخلاق ساقی ضیا الحسن ضیا عبدالرحمن تابانی اور راقم الحروف بھی بعد از فراغت حاضر ہوتے اور خوب محفل جمتی اور موجودہ ادب پر بحث ہوتی اور مستقبل میں ہونے والے ادبی پروگراموں پر مشاورت بھی ہوتی۔ شاہد لطیف ہاشمی لا چیمبر یہ چیمبر جناح پلازہ نزد مرکزی امام گاہ عقب پولیس اسٹیشن گوجر خان تھا یہاں بھی شیراز طاہر لازمی شاہد لطییف ہاشمی ماجد وفا عابدی اور راقم الحروف بیٹھتے اس چیمبر میں بزم سخن کے کئی مشاعرے ہوئے

اہم بات،انجمن ترقی پسند مصنفین گوجر خان کا پہلا پروگرام بھی یہاں منعقد ہوا مشاعرہ کے علاوہ موجودہ سوسائٹیوں کے ہمارے معاشرے پر اثرات کے موضوع پر بہت مفید گفتگو ہوئی صدارت جنید غنی راجہ نے کی تھی۔پوٹھوہاری کا بڑا گھر پوٹھوہار کا بڑا گھر شیراز طاہر کی رہائش گاہ موہڑہ غوریاں نزد ٹال پلازہ مندرہ کو مانا اور کہا جاتا ہے اہم بات کہ پوٹھوہاری زبان کی ہرکتاب ان کی ذاتی لائبریر ی میں موجود ہوتی تھی میرے علاوہ دوسرے شاعر ادیب بھی یہاں آتے نہ صرف ادب پر بات ہوئی بلکہ اپنی ضرورت کی کتابیں بھی مل جاتیں میں تو مہینے اک بار لازمی ان کے پاس جاتا اور پوٹھوہاری زبان و ادب کے علاوہ پوٹھوہاری تحریک پر گفتگو سیر حاصل گفتگو ہوتی یہاں پر بھی کئی مشال پوٹھوہاری رائٹر کلب کے پروگرام منعقد ہوئے پوٹھوہاری کے خوبصورت شاعر جناب ضیا الحسن ضیا مرحوم کا تعزیتی ریفرنس اس بیٹھک میں ہوا۔ شیراز طاہر کی پوٹھوہاری زبان و ادب کے حوالے سے کئی اہم کتابیں شائع ہوئیں

آپ پوٹھوہاری میں افسانہ نگاری کے علاوہ پوٹھوہاری میں غزل اور نظم بھی لکھتے تھے اور اردو افسانہ نگاروں کے اہم افسانے اردو میں ترجمہ کر کے کتابی صورت میں شائع بھی کرتے رہے ہیں اس کے علاوہ ادبیات اسلام آباد میں پوٹھوہاری زبان کے افسانے نظمیں بھی ترجمہ کر کے پوٹھوہاری کی نمائندگی کرتے پھر زبان کے مشکل موضوع پر مواد اکٹھا کر کے کتابی صورت میں شائع کروایا۔ آپ کی درج ذیل کتب شائع ہو چکی ہیں ان میں بنگ بنگ زنجیر ستمبر 2002‘ گلوجے 21جنوری 2004 گلوجے دوسرا ایڈیشن 21فروری 2021‘کو کلے2015 شیراز الالغات جنوری 2016‘ نوراں 2016‘سنہیے مہھاڑی اکھیاں نے جنوری 2018‘موتیا 21 فروری 2021‘، رنگ روپ 21فروری 2022‘پوٹھوہاری زبان و ادب 2018‘پوٹھوہاری زبان و ادب اکادمی ادبیات نے 2022میں شائع کی۔اس کے علاوہ شیراز طاہر کے دو پوٹھوہاری ناول اور اک پوٹھوہاری افسانوں کی کتاب زیر طبع ہیں پوٹھوہار ادبی مجلہ *پرا *کی اشاعت۔سرگ کے علاوہ کوئی پوٹھوہاری ادبی میگزین شائع نہ ہوتا تھا شیراز طاہر کے گھر پورے پوٹھوہاری زبان کے رائٹر اکٹھے ہوئے

اور پرا رسالے کا آغاز ہوا11پرا کے مجلے آپ کی مدارت میں شائع ہوا جب کہ ایک مجلہ فرزند علی ہاشمی کی مدارت میں شائع ہو پرا کے غزل نظم افسانہ اور نعت کافی خاص شمارے شائع ہوئے آپ اس پر خود کام کرتے۔شیرا ز طاہر ایک عہد ساز شخصیت تھے اور ہر وقت ادبی کاموں میں مصروف رہتے آپ کی ادبی خدمات اور کتابوں پر اکادمی ادبیات نے لائف ٹائم چیف ایوارڈ،انجمن ادب پوٹھوہار واہ کینٹ،پوٹھوہاری ادبی سوسائٹی راولپنڈی،پوٹھوہاری رائٹر کلب،اور پوٹھوہاری کلچرل اینڈ لینگویج ریسرچ سنٹر کی طرف سے اعزازی شیلڈ اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔یہ پورا پوٹھوہار جانتا ہے کہ شیراز طاہر عہد ساز شخصیت تھے

ان کے قلم سے پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان کی بات قلم بند ہوتی تھی انھوں نے اپنا زیادہ وقت پوٹھوہاری زبان کی ترویج و ترقی پر دیا کوئی ادبی محفل آپ کے بغیر سجتی نہ تھی آپ کے پوٹھوہاری زبان سے محبت کا معترف پوار پوٹھوہار اور ادبی حلقہ ہے۔آپ 4جنوری 2024کو اپنے گھر والوں اوت ادبی دوستوں کو روتا چھوڑ گئے آپ کی آخری آرام گاہ موہڑہ غوریاں کے قبرستان میں ہے آپ کی پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان و ادب کے فروغ اور بقا کے لیے خدمات کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا آپ ادبا کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں