73

مفت آٹا، شاہد خاقان کے الزامات کی تحقیق کی جائے

مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ رمضان المبارک میں مفت آٹا تقسیم کرنے کے دوران بڑی کرپشن کی گئی ہے۔ 84 ارب روپے کا آٹا تقسیم ہوا جس میں سے 20ارب روپے کی کرپشن کی گئی۔ شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما ہیں جبکہ انہیں مسلم لیگ نون نے اتنی عزت دی کہ انہیں وزیر اعظم تک بنا ڈالا اس کے باوجود انہوں نے ایسا انکشاف کیا ہے تو یہ قابل تحسین بات ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں اپنی جماعتوں کا دفاع ہی کیا جاتا ہے چاہے وہ کچھ بھی کریں۔ یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنی ہی جماعت اور اس کی گورننس کے خلاف اس قسم کے انکشافات کرے۔ انہیں کی جماعت کی ہی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس الزام کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ رمضان المبارک میں پنجاب خیبر پختونخوا سندھ اور اسلام آباد میں کروڑوں غریبوں میں مہنگائی کے باوجود پوری شفافیت اور ایمانداری سے مفت آٹا تقسیم کیا گیا جس کی نگرانی وزیر اعظم نے خود کی اور وزیر اعظم نے مفت آٹا تقسیم کرنے کا جائزہ لینے کے لئے مختلف شہروں کے دورے بھی کیے۔ تاریخی اسکیم کی کامیابی میں انتظامی افسران اور عملے نے دن رات محنت کی جو قابل ستائش ہے۔ اب ایک ہی جماعت کے سینئر رہنما ایک دوسرے کے مخالف بیانات دے رہے ہیں ایک رہنما اس کو بری گورننس اور کرپشن قرار دے رہا ہے جبکہ دوسرا رہنما اس کی انتہائی تعریفیں کر رہا ہے۔
بہرحال شاہد خاقان عباسی کا الزام کوئی ایسا نہیں ہے کہ جس کی تردید کی جا سکے کیونکہ ہمارا معاشرہ ایسا ہی ہے اور ہم اپنے معاشرے کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری رگوں میں کرپشن کس قدر رچ بس گئی ہے۔ جس شخص کو جتنا موقع ملتا ہے وہ کرپشن سے باز نہیں آتا اور اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ ایک ریڑھی والے سے لے کر وزیراعظم اور صدر تک ہر شخص ہر وقت دوسروں کی جیبوں پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ کس وقت کہاں سے موقع ملے اور وہ دوسروں کی جیب پر ہاتھ صاف کرے۔
ہمارے حکمرانوں اور افسران بالا کی پالیسیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن میں دوسروں کے لئے بلکہ خود ان کے لئے بھی چور دروازے نکلے ہوتے ہیں اب کون پوچھے اس بات کو کہ 84 ارب روپے کے آٹے کی تقسیم میں 20 ارب روپے کی کرپشن کس نے کی اور کہاں کی اور کب کی؟ شاہد خاقان عباسی اگر اتنا بڑا الزام لگا رہے ہیں تو یقینا ان کے پاس تفصیلات ہوں گی۔ انہیں چاہیے کہ وہ تفصیلات حکومت اور تفتیش کرنے والے اداروں کے سامنے رکھیں تاکہ اس کرپشن کا سراغ لگایا جاسکے اور ملزمان کو گرفتار کیا جاسکے مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ افسران بالا خود جب اس میں ملوث ہوں گے اور یقینا وہ اس میں ملوث ہوں گے ان کی مرضی کے بغیر اتنی بڑی کرپشن ممکن ہی نہیں تو پھر کون اس کی انکوائری کرے گا کون تفتیش کرے گا اور کون پوچھے گا کہ کس نے کتنی کرپشن کی اور کب اور کہاں کی؟ ہماری پالیسیاں اتنی ناقص ہوتی ہیں کہ ہر شخص ان سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے جیب بھر سکتا ہے اور عوام کو باآسانی ان کے حقوق سے محروم کر سکتا ہے۔
اب شاہد خاقان عباسی نے الزام تو لگا دیا مگر وفاقی حکومت نے بجائے اس کے کہ وہ کہے کہ ہم اس کی تفتیش کریں گے اس کی جانچ پڑتال کریں گے شاہد خاقان عباسی سے پوچھیں گے کہ وہ ہمیں تفصیلات فراہم کریں کہ آپ کو کہاں سے علم ہوا کہ اتنی کرپشن ہوئی ہے، ہم اس کی تحقیق اور تفتیش کریں گے اور ملزمان کو کڑی سزا دیں گے، انہوں نے بنا کچھ سوچے سمجھے اس الزام کی تردید کردی۔ اس طرح بیٹھے بٹھائے
بغیر کسی تفتیش و تحقیق کے اتنے بڑے الزام کی تردید کر دینا یہ اس بات کو مزید پختہ کرتا ہے کہ یہاں پر دال میں کچھ تو کالا ہے۔
شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم ہیں جبکہ مریم اورنگزیب بھی مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر ہیں اب یہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف بیانات دے رہے ہیں اور ایک الزام لگا رہا ہے اور دوسرا فوراً اس کی تردید کر رہا ہے تو کیسے معلوم ہو کہ کون درست کہہ رہا ہے اور کون غلط؟ اب مسلم لیگ ن مسلم لیگ ن کے ہی مد مقاب ہے۔ اب حکومت کو اس الزام کی سختی سے تحقیق اور تفتیش کرنی چاہیے کہ شاید خاقان عباسی نے کن لوگوں پر الزام لگایا ہے ان کا اشارہ کن کی طرف ہے اگر وہ واقعی اس کرپشن میں ملوث ہیں تو ان لوگوں کو سخت سزا دینی چاہئے اور اگر یہ دعویٰ غلط ہے تو پھر شاید خاقان عباسی کو جھوٹے الزامات پر سزا ملنی چاہیے۔ تاکہ ملک میں کرپشن اور جھوٹے الزامات لگانے کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے۔اس کے علاوہ اس تحقیق کا فائدہ غریب عوام کو بھی ہو گا کہ اگر اس میں بیس ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے تو جن لوگوں کے پاس یہ کرپشن کی رقم ہے ان سے لے کر غریبوں کو مزید ریلیف دیا جاسکے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں