30

جرائم کی شرح میں اضافہ، اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

پاکستان میں ہر سال جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ہر گزرتے سال کے ساتھ جرائم کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے، ہر سال گزشتہ سال سے زیادہ جرائم دیکھنے میں ملتے ہیں، 2022 کے دوران پنجاب میں ہی جرائم کی شرح میں 30 فیصد اضافہ ہوا، 2022 میں 7 لاکھ 18 ہزار جبکہ 2023 میں 10 لاکھ 33 ہزار مقدمات درج ہوئے۔ ملک بھر میں جرائم کی شرح ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھنے لگی ہے۔ 2023 کے دوران مجموعی طور پر زیادتی کے 3500 ڈکیتی کے 8 ہزار جبکہ چھینا جھپٹی کے 28 ہزار مقدمات درج ہوئے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مقدمات درج کیے جاتے ہیں موٹر سائیکل اور موبائل فون چھیننے کے واقعات تو بہت ہی زیادہ پیش آ رہے ہیں، گلی محلوں میں لوگ خوفزدہ گھومتے رہتے ہیں کہ کسی وقت موبائل نکالا تو کوئی چھین کر لے جائے گا، ایسے واقعات کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہو چکا ہے۔ 2024 میں بھی اب تک کے درج مقدمات میں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شرح بھی گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ ہی ہے اگرچہ مکمل برس کی رپورٹ تو سال کے اختتام پر ہی پیش ہوں گی مگر اب تک

کے مقدمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال بھی شرح (خدانخواستہ) زیادہ ہی رہے گی۔
پاکستان میں اگرچہ ہر طرح کے ادارے موجود ہیں پولیس موجود ہے، فوج موجود ہے اور پولیس میں بھی کئی طرح کے شعبے ہیں جن کے ذمے اپنے اپنے کام ہیں، مختلف جرائم اور مختلف مسائل کو دیکھنے کے لیے مختلف ڈیپارٹمنٹس قائم کیے گئے ہیں، ہر تھانے کے اندر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہوتی ہے ہر علاقہ کے اندر پولیس موجود ہوتی ہے اس کے باوجود جرائم کی اتنی بڑی شرح اور اس میں مسلسل اضافہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
اداروں میں موجود افسران سے لے کر سپاہیوں تک تمام کے تمام بھاری تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں، گاڑیاں اور دیگر کئی طرح کی سہولیات انہیں میسر ہیں لیکن وہ نہ جانے کہاں پر استعمال ہو رہی ہیں؟ اگر ان تمام تر سہولیات کے باوجود مجرم قابو میں نہیں آرہے اور جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے تو یہ سوچنے کی بات ہے کہ قوم کا پیسہ اداروں پر لگایا جا رہا ہے انہیں پالا جا رہا ہے، انہیں مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن بجائے یہ کہ عوام کو اس کا فائدہ ہو عوام کو الٹا ان کا نقصان ہی ہو رہا ہے.
دراصل اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو فرض نہیں سمجھتے اور وہ ان سے انتہائی غفلت برت رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں جو رشوت کرپشن وغیرہ عام ہے اور اس کو بھی گناہ نہیں سمجھا جاتا اس کی وجہ سے بھی ایسے جرائم عام ہوتے جا رہے ہیں ظاہر ہے کہ جب پولیس والے یا اداروں میں بیٹھے افسران مجرموں کو رشوت لے کر چھوڑ دیں گے یا کسی مجرم کو صرف اسی نیت سے گرفتار کریں گے کہ اس سے کچھ جیب بھرنے کو مل جائے گا تو انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ کوئی حلال کام کریں اور جرائم کو چھوڑ دیں، وہ ان کو اداروں میں بیٹھے افسران کو ساتھ ملا کر اپنا کام نکال لیں گے۔ رشوت مانگنا تو ہمارے ہاں برا سمجھا ہی نہیں جاتا، سانحہ بہاول نگر میں کس قسم کی رپورٹ سامنے آئی اور کس قسم کے الزامات سننے کو ملے، انہیں دیکھ کر تو روح تک کانپ جاتی ہے کہ کیسے پولیس افسران مسلسل ایک ہی کیس میں کتنے لوگوں کو بلیک میل کر کے رشوتیں وصول کرتے رہے اور بالآخر اپنے انجام تک پہنچ گئے لیکن دنیا میں ہر ایک اپنے انجام تک نہیں پہنچتا اسی وجہ سے تو

<script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-1038111931531775"
     crossorigin="anonymous"></script>

یہ لوگ بلا خوف و خطر اس کام میں پڑے ہوئے ہیں۔ بہاولنگر میں بھی اہم ادارے لوگ نکل آئے جس کی وجہ سے پولیس کو لینے کے دینے پڑ گئے اگر اس ادارے کے افراد نہ ہوتے اور عام عوام ہوتے تو پھر کس نے انہیں پوچھنا تھااور عوام کے ساتھ تو اس قسم کا رویہ عام سی بات ہے۔ اگر اپنے لوگ نہ ہوں تو دوسرے اداروں کے لوگ بھی کرپٹ پولیس افسران کے ساتھ مل کر لوگوں کو ستاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اداروں کے افسران کو درست رکھنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے، بے ایمانی، رشوت وغیرہ بہت عام ہے ہر شخص اسی کوشش میں ہے کہ کسی طرح دوسروں کی جیب سے کچھ نکل آئے، جس کو اس کام پر لگائیں کہ وہ دوسروں پر نظر رکھے وہ خود ہی انہی کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور جن پر نظر رکھنے کے لیے بیٹھتے ہیں انہیں بھی ساتھ ملا لیتے ہیں اور پھر مل جل کر کھاتے اور کھلاتے ہیں یوں یہ نظام درست ہونے کی بجائے مزید بگڑ رہا ہے جو عوام کو بھگتا پڑ رہا ہے۔ پورے معاشرے کی اخلاقیات تباہ ہو چکی ہیں، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے حکمران نظام درست کرنے کی بجائے عوام کو دو دو پیکج دیتے ہیں اور اسی پر اپنا پورا عرصہ گزار دیتے ہیں نظام کی درستی کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ تو جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن اداروں کی طرف سے غفلت برتی جا رہی ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ اس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ دیں اور اس نظام کو بہتر کریں اور غفلت برتنے والے افسران و اہلکاران کے خلاف سخت کاروائی کریں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں