68

سیاستدان بیساکھیوں کی بجائے ووٹوں سے اقتدار میں آئیں

سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف4سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد 21اکتوبر کو وطن واپس پہنچ گئے۔ 2019میں وہ جیل میں تھے اور ان پر کئی طرح کے مقدمات بنے ہوئے تھے، پھر اچانک ان کی طبیعت خراب ہوئی اور ڈاکٹروں نے کئی روز ہ معائنے کے بعد انہیں باہر جانے کا مشورہ دیا اور عدالت نے بھی انہیں لندن جا کر علاج کرانے کی اجازت دے دی جس پر وہ علاج کے لیے لندن گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے یہ الگ بات ہے کہ وہ اس وقت انتقام کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور ان پر بننے والے کیسز ایسے نہیں تھے کہ انہیں تاحیات نااہل قرار دے کر جیل میں ڈال دیا جاتا۔ جن مقدمات میں نواز شریف کو مجرم قرار دے کر جیل میں ڈالا گیا ان جرائم کا ارتکاب تو ملک میں کئی دیگر لوگوں نے بھی کر رکھا تھا مگر انہیں تو کچھ نہ کہا گیا اور نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیاکیونکہ وطن عزیز میں جب کسی کو انتقام کا نشانہ بنانا ہو یا سزا دینی ہو تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا جاتا ہے جیسا کہ آج کر عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بہر حال میاں محمد نواز شریف نے وطن واپس آنے کا اعلان کیا تو ان کی جماعت نے فوراً عدالتوں سے ان کے لیے ضمانتیں حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں، پھر کیا تھا چند منٹوں میں کیس سماعت کے لیے مقرر ہوئے، پھر سماعت اور پھر ضمانتیں دے دی گئیں۔ یعنی جب ارادہ ان سے انتقام لینے کا تھا تب ان پر منٹوں میں مقدمات درج ہوتے تھے اور سزائیں سنا دی جاتی تھیں اور جب انہیں ریلیف دینے کا فیصلہ ہو گیا تو اسی طرح فوراً ضمانتیں ہونے لگیں، وہی شخص جو چار سال سے گرفتاری کے خوف سے وطن واپس نہیں آرہا تھا اب وہ کیسز کے باوجود ملک میں آزاد گھوم رہا ہے۔ اگر ان کیسز کے باوجود وہ آج آزاد گھوم سکتا ہے تو چار سال قبل ایساکیوں ممکن نہیں تھا؟دوسری طرف 2018سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان پر کوئی بھی کیس ہوتا تھا عدالتوں سے فوری ریلیف مل جاتا۔ پانامہ کیس میں جہاں نواز شریف اور عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کو تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑا اسی نوعیت کے کیس میں انہیں عمران خان کو بری کر دیا گیا۔ عمران خان پر بننے والا کوئی کیس زیادہ دن نہیں چلتا تھا۔ یہی سلسلہ 2023کے وسط تک چلتا رہا۔ منٹوں میں بار ہ بارہ کیسز میں انہیں ضمانتیں مل جایا کرتی تھیں اور اگر کوئی عدالت انہیں گرفتار کرنے کا حکم بھی دے دیتی تو کوئی ’مائی کا لال‘انہیں گرفتار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے کارکنوں نے ان کی رہائش گاہ کے باہر ڈیرے ڈال رکھے تھے، پولیس اہلکار گرفتاری کے لیے جاتے تو وہ ان پر حملہ کر دیتے اور شدید مزاحمت کرتے حتیٰ کے پیٹرول بم بھی پھینکتے۔ اس سب کے باوجود عدالتوں سے انہیں ریلیف مل جاتا۔ یوں عمران خان ایک طویل عرصہ تک کارکنوں کے حصار اور اداروں کی سپورٹ کی وجہ سے گرفتاری سے بچتے رہے۔ پھر ایک وقت وہ آ یا جب عمران خان کی دوستی سپورٹ کرنے والوں سے ختم ہو گئی اور وہ گرفت میں آ گئے اب ان کے خلاف کیسز بننے لگے اور ریلیف ملنا بند ہو گیا، پھر ان پر بننے والے مقدمات میں وہ پھنستے چلے گئے۔ بالآخر انہیں بھی ایسے مقدمات میں سزا کا سامنا کرنا پڑا جن میں دیگر بہت سے سیاستدان بھی ملوث تھے مگر اب چونکہ انتقام ان سے لینا تھا لہٰذا انہیں گرفتار کر لیا گیا اور دیگر کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔ جیسے توشہ خانہ سے کون سے سیاستدان نے فائدہ نہیں اٹھایا لیکن باقی سب کو تو چھوڑ دیا گیا مگر جسے پھنسانا تھا اس پر مقدمات چلا کر گرفتار کر لیا گیا۔جب گرفتار کیا گیا اس سے قبل ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ گرفتاری کے وقت کوئی کارکن سامنے نہ آیا اور انہیں باآسانی گرفتار کر لیا گیا۔ اب پھر وہی سب کچھ دہرایا جا رہا ہے کہ جسے اس وقت مقدمات میں پھنسایا جا رہا تھااسے بری کیا جا رہا ہے اور جو اس وقت آنکھ کا تارا بنا ہوا تھا وہ اب گرفت میں ہے۔ اس تمام صورتحال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاستدانوں پر بننے والے کیسز کا تعلق حقیقت سے کم اور انتقام سے زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے لیے لازم ہو تا ہے کہ وہ اداروں کو خوش رکھیں اور اپنا کام چلائیں۔ جب تک اداروں کے ساتھ تعلقات بہتر رہیں گے یہ مزے لوٹتے رہیں گے اور لاڈلے بنے رہیں گے لیکن جیسے ہیں اداروں کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ساتھ ہی گرفت میں آگئے، فوراً کیسز بننے لگے اور گرفتاری و نااہلی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں جو دعوے یا وعدے عوام سے کر کے آتے ہیں انہیں اپنے دور حکومت میں پورا نہیں کر سکتے کیونکہ تب ان کی مرضی تو چلتی نہیں ہے تو کیسے ان وعدوں کو پورا کریں۔ مگر ان کا جرم یہ ہوتا ہے کہ یہ جب تک اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں تب تک ڈیل کر کے چلتے رہتے ہیں تب عوام کو نہیں بتاتے کہ ہم کتنے مجبور اور بے بس ہیں ہمیں چلنے نہیں دیا جا رہا لہٰذا ہم استعفیٰ دے رہے ہیں۔ جب ان سے اقتدار چھن جاتا ہے تب ساری باتیں کھولنے لگتے ہیں۔ مگر تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور پھر کوئی دوسرا سیاستدان وہی سارا عمل دہرانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ لہٰذا سیاستدانوں کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی اس عمل سے خود بھی جان چھڑانا چاہتے اور ملک کو بھی اس سے نکالنا چاہتے اور یہ چاہتے ہیں کہ بیساکھیوں کے بغیر خالص عوامی ووٹوں سے اقتدار میں آئیں اور اپنی مرضی سے حکومت کریں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو بھی پورا کریں تو انہیں مل بیٹھ کر اس نظام کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدہ کرنا ہو گا اور اس بات کا عہد کرنا ہو گا کہ اب ہم اداروں کو ان کی حدود میں رکھیں گے اور کسی کی مانے بغیر اپنے دستور و منشور کے مطابق انتخابات میں حصہ لیں گے کسی ادارے کے قدموں پر چل کر اقتدار میں نہیں جائیں گے۔ تمام جماعتیں اس بات کا معاہدہ کریں اور جو جماعت انتخابات میں کامیاب ہو جائے اسے حکومت بنانے کا موقع دیں، ملکی ترقی کے لیے اس کی حکومت کو چلنے دیں اور اس کا بھر پور ساتھ دیں۔ اگر سیاستدان واقعی ملکی ترقی چاہتے ہیں اور انتقام اور ڈیل کی سیاست سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں تو یہی ایک طریقہ ہے ورنہ پانچ برس کے بعد یہی تاریخ دہرائی جا رہی ہو گی اور آج جس کے ساتھ ڈیل ہو رہی ہے وہ مجرم قرار دیا جائے گا اور کسی اور کو ڈیل کے ذریعے اقتدار میں لانے کی تیاریاں ہو رہی ہوں گی۔ ضیاء الرحمن ضیاءؔ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں