columns 69

محسن پاکستان اور ہماری محسن کشی

اپنوں اور ہندوستان کی ملی بھگت اور سازش سے پاکستان 1971ء میں دولخت ہو گیا تو پاکستان کو ایٹمی طاقت دے کر ملک کو ناقابل تسخیر بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ملک سے باہر تھے اور تعلیم کے بعد بیرون ملک ایک اعلیٰ عہدے پر فائز پُرتعیش زندگی گزار رہے تھے جب پاکستان کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش گیا تو ڈاکٹر صاحب کے لئے یہ کسی سانحہ سے کم نہ تھا اور وہ دیار غیر میں اس قومی المیہ پر مسلسل ایک اضطراب میں مبتلارہے اور 18مئی1974ء کو جب ہندوستان نے امریکی اور اسرائیلی مدد سے اپنا پہلا غیر اعلانیہ دھماکہ کیا تو ڈاکٹر صاحب کا اضطراب اور بے چینی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی

ایک طرف مشرقی حصہ کی علیحد گی اور اس پر مستزادہندوستان کا غیر اعلانیہ ایٹمی دھماکہ ڈاکٹر صاحب نے1975ء میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو سے رابطہ کر کے انہیں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں بھٹو صاحب نے قبول کر لیا اس سلسلے میں بھٹو صاحب کی طرف سے بھرپور تعاون کی یقین دہائی کے بعد وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستا ن آگئے اور 1976ء میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے اپنے خواب کی تکمیل و تعبیر کے لئے صرف تین ہزار روپے کے معمولی ماہانہ مشاہرہ پر کام شروع کر دیا اور معمولی تنخواہ ہونے کے باوجود بھی یہ تنخواہ انہیں چھ ماہ بعد ملی اور ڈاکٹر صاحب کو تنخواہ سے کوئی غرض تھی اُن کے دل ودماغ میں ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ ہندوستان کے مقابلے میں اپنے ملک کو ہر حالت میں جو ہری طاقت بناناہے

وہ ہندوستان کے ایٹمی دھما کے کا منہ توڑ جواب دینا چاہتے تھے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں تھا اس مقصد کے لئے انہوں نے خاصی تگ ودواور محنت کرنے کا فیصلہ کر لیا سب سے پہلا اور اہم مسئلہ محفوظ اور موزوں جگہ کا انتخاب اور حصول ضروری لوازمات اور ایک محنتی مخلص فعال اور کار آمد ماہرین کی ٹیم درکار تھی اُن کا جذبہ صادق تھااور وہ سو دوزیاں سے بے نیاز اور اپنی دھن میں مگن اس کام میں لگے رہے گو کہ اس میں طرح طرح کی مشکلات اور تکالیف آڑے آتی رہیں مگر انہوں نے انہیں خاطر میں لائے بغیر دن رات اپنا کام جاری رکھا اور اللہ کے فضل وکرم سے وہ ہر مشکل اور رکاوٹ کا مردانہ وار مقابلہ کر تے ہوئے اپنے عظیم مقصد کے حصول کی طرف گا مزن رہے اور وہ ملک جہاں اس وقت سُوئی بھی نہیں بنائی جاتی تھی چھ سات سال کے مختصر عرصہ میں انہوں نے 1984ء میں پاکستان کو جو ہری طاقت بنا کر دم لیا

مگر عالمی سیاسی مصلحتوں کے تحت حکومت پاکستان نے اس کا اعلان نہ کیا لیکن جب13,11مئی1998کے دوران ہندوستان نے پکھران میں اعلانیہ ایٹمی دھما کے کئے تو اُ س وقت کے ایک ہندوستانی وزیر لال کشن ایڈوانی نے کہا کہ پاکستانی قوم اب ہمارے سامنے سر جھکا کر چلے کہ اب ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا خون کھول اٹھا اور انہوں نے اس وقت کے وزیر میاں نواز شریف سے کہا کہ اگر ہم نے اب ایٹمی دھماکہ کے نہ کئے تو پھر کبھی نہیں کر سکیں گے اور پھر 28مئی 1998کو چاغی میں پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کر دئے اور یوں یہ ایٹمی سفر تکمیل کو پہنچا یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بیرونی ملک میں ایک ایسے ادارہ میں کام کرنا پڑا جہاں جو ہری تو انائی کے حصول کی کوششیں اور کام ہو رہا تھا جس میں یورب کے کئی ممالک شامل تھے اور دنیا ان کے اس عمل سے بے خبر اور ناآشنا تھی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ار بوں ڈالرزکی ٹیکنا لو جی بغیر
کسی قیمت کے ملک کو تحفے کے طور پر دی اور اسے پاکستان کے لئے استعمال کیا ملک ایٹمی قوت بنانے کی ذولفقار علی بھٹو کی شروعات کے علاوہ صدر غلام اسحاق خان مرحوم اور جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بھی اس مشن کو جاری رکھا جبکہ دھما کے میاں نواز شریف کے عہد میں ہوئے ڈاکٹر خان صاحب کے اس کارنامے پر پوری قوم نے ان کی بے حدپذیرائی کی اور انہیں محسن پاکستان کا اعزاز بخشاعلاوہ ازیں اس حوالے سے عالم اسلام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور پاکستان دنیا کاساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ایٹمی قوت کا حامل ملک بن گیا اور انہیں اسلامی ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم اور عرب ممالک کے حکمرانوں نے مبارک باد پیش کی اور ان کے اس کارنامے پر بڑی مسرت و ابساط کا اظہار کیا اس کے علاوہ انہیں حکومت پاکستان نے کئی قومی اعزازات سے نوازا

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پہلا اعزاز چودہ اگست 1989ء میں ہلال امتیاز دوسرا چودہ اگست 1996ء میں نشان امتیاز اور تیسرا اعزاز 1999ء میں دوبارہ نشان امتیاز عطا کیا گیا اور یوں ڈاکٹر صاحب ملک کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کو ایک سے زیادہ قومی اعزازات دئے گئے اس کے علاوہ درجنوں یو نیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹر یٹ کی اعزاز ی ڈگریاں دیں اور کئی قومی سماجی اور ثقافتی اداروں نے ان کی سونے سے تیار شدہ تاج پو شی کی اور گولڈ میڈل تحفے اور سینکڑوں اعزازی شیلڈوں سے نوازاگیا ایک طرف پاکستانی قوم اور ملت اسلامیہ کی طرف سے ان کی بار آور کو ششوں کو سراہاجا رہا تھا اور دوسری طرف پاکستان اور اسلام دشمن قوتیں یہ کیسے برداشت کر تیں کہ ایک اسلامی ملک ایٹمی قوت بن جائے اور انہوں نے حسب معمول پاکستا ن خصوصا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف ساز شیں شروع کر دیں تاکہ پاکستان ڈاکٹر خان صاحب کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہ ہو جائے اس کے لئے انہوں نے پاکستان کے اندر ہی کچھ لوگوں کو ڈالر زکے عوض خرید لیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ڈاکٹر خان مو صوف کی ماہرانہ خوبیوں کو استعمال کر کے سیٹلائٹ سیارہ خلامیں چھوڑتے، آٹوموبائل صنعتوں کو جدید طور پر استوار کر کے ملکی معیشت کو مستحکم کرتے پاکستان دشمن قوتوں کو یہ باور ہو گیا کہ ڈاکٹر خان صاحب کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا گیا تو پاکستان امریکہ برطانیہ یورب اور جاپان سے بھی ترقی میں آگے نکل جائے گا اور اسے ہماری ضرورت نہیں رہے گی اس حوالے کا مر کزی کر دار کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے ہی ملک کا سابق صدر پرویز مشرف تھا اسے ڈاکٹر خان صاحب کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس نے قوم کے اس ہیروکو مختلف حربوں سے پریشاں کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ اگر آپ نے ہماری بات نہ مانی تو آپ کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا اور ڈاکٹر خان جو پہلے ہی ملک کے لئے قربانی دے کر پاکستان کو نا قابل تسخیر بنا چکے تھے

انہوں نے ایک اور قربانی دی اور چار فر وری 2004ء کو انہیں دباؤڈال کر پہلے سے تیار شدہ ایک بیان ٹیلی ویثرن پر پڑ ھوایا گیا جسے پاکستانی قوم نے مسترد کر دیا کہ وہ ڈاکٹر خان صاحب کے جذبہ اخلاص اور حب الوطنی سے پوری طرح آگاہ تھی اور پھر اس خوف سے کہ کہیں قوم اس اقدام کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہو اگلے روز پانچ فروری 2004ء کو پرویز مشرف نے ایک پریس کا نفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ایک آزاد شہری ہیں اور وہ ملک کے اندرجہاں جاناچاہیں آجاسکتے ہیں مگر انہیں بیرو ن ملک جانے سے روک دیا گیا مگر اس بیان کے برعکس انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور اُن کی آزادنہ آمد ورفت پر پاپندی عائد کر دی گئی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا وہ پاکستان کے معروف ایٹمی سائنسدان اور اس کے ناموربلاشبہ اُن کی ملکی وقومی اور ملی خدمات کو ہمیشہ سراہا جائے گا اور اُن
کی خدمات سے ہم پاکستانی کبھی عہدہ برآنہیں ہو سکتے بلکہ اُن کی خدمات کے سامنے ہماری گردنیں ہمیشہ جھکی رہیں گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں