210

ماہ صیام کا پیغام

راجہ آصف محمود جنجوعہ
بالآخر رمضان کریم کے گنتی کے ایام اختتام پذیر ہوئے اور عید الفطر بھی گزر گئی اور لوگ اپنے کام کاجوں میں مصروف ہو گئے اور دنیا میں کھو گئے۔کریں بھی کیا؟ مہنگی کے اس دور میں محنت مزدوری بھی نہ کی جائے تو کام نہیں چلتا اور اوپر سے شکم کی بھوک ہر چیز پر حاوی ہوتی ہے۔خالی ہیٹ تو پانا وجود بھی اچھا نہیں لگتا۔خیر اس سے پہلے کہ بات کہیں اور نکل نہ جائے آتے ہیں اصلی موضوع کی طرف۔ماہ مبارک رمضان کریم میں سکون و اطمینان کا اپنا ہی ایک لیول ہوتا ہے اور شاید یہ اس لیے کہ رحمتوں کا سلسلہ عام ہوتا ہے اور شیاطین بند ہو جاتے ہیں۔تقریباً ہر شخص کے اندر دینے کا جذبہ ہوتا ہے،صدقات،خیرات،زکوۃ کی ادائیگی عام ہوتی ہیں سر پر ٹوپی‘ہاتھ میں تسبیح اور مسجدیں کچھا کھچ بھری ہوئیں اور صبح شام مسلمین کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا،قربتوں کو بڑھاتا ہے‘کہیں افطار کی دعوتیں‘کہیں لنگر تقسیم رونقیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔مگر یوں ہی رمضان گزر جاتا کہ اور چند ہی روز میں ایسا لگتا جیسے کسی الگ دنیا میں آ گئے ہوں،جیسے کسی مسلم دیس سے ہجرت کر کے کس اغیار دیس میں آ گئے ہوں۔مسجدیں ویران‘حلیے تبدیل‘ جذبے ختم اور وہی اجنبیوں جیسی زندگی۔سوال یہ ہے کہ کیا عبادات و معاملات صرف رمضان میں ہی کرنے کا حکم ہے؟ تو جواب ہے نہیں ہر گز نہیں۔رمضان تو ایک ریہرسل ہے جو بھولے بھٹکوں کو راہ راست پر لانے کے لیے تا کہ متقی اور پرہیزگار بنیں۔تو پھر خدا راہ رمضان کے بعد بھی مسجدوں کو ویران نہ یونین دیں۔لوگوں کو بھوکا نہ سونے دیں اور مسلمین سے گلے ملنا نہ چھوڑیں۔ شیطان کو شکست دیں اور رحمان کے بندے بن جائیں ان شاء اللہ رمضان والا سکون و اطمینان ضرور محسوس ہوگا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں