240

مائیں ایک دم مر تو نہیں جاتی ہیں

اولاد کے بچھڑ جانے کے غم میں مائیں ایک دم مر تو نہیں جاتی ہیں بلکہ رفتہ رفتہ گھلتی رہتی ہیں ہر وقت کھوئی رہتی ہیں جب کسی کو دکھ درد پہنچتا ہے تو اس کی ہمدردی و غمگساری میں اپنے آنسو بہاتی ہے ہر ایک کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ صبر کا مظاہرہ کررہی ہیں مگر ایک طوفان کو اپنے اندر دفن کرنے کی کوشش میں مصروف عمل رہتی ہیں اولاد کے چلے جانے پر والدین پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا ہے والدین تو اپنی اولادکی یاد کو بھولنے نہیں دیتے اس غم کے گلشن کو ہمیشہ آباد رکھتے ہیں

کہیں آہ و بکا کہیں کوک وفریاد اور کہیں گہری خاموشی یہ سب اس غم کو زندہ رکھنے کے بہانے ہوتے ہیں تنہائی خلوت چاہے ہنگامہ و جلوت ہو سب میں غم جدائی کا اظہار ہوتا ہے بڑے سمجھدار عقلمند ہوش و خرد رکھنے والے بھی اولاد کے غم میں اپنی صحت تندرستی ہر چیز کھو دیتے ہیں جوان کی موت پر ہر ایک اشکبار ہوتا ہے ماں باپ تو چھپ چھپ کر ہر آن روتے ہیں گزار تے ہیں جب دنیا کا سامنا کرتے ہے تو اپنے غم کو ظاہر نہیں کرتے

دوران سفر بہت سی ماؤں کو اجنبی بچوں پر محبت نچھاور کرتے دیکھتے ہیں نجانے اپنے کس بچے کے غم میں یہ سب کرتے ہیں میرے بھائیوں کی وفات کو چپکے چپکے سے سب سے زیادہ میرے والد یاد کرتے ہے ان کی ایک بات نے تو میرا سینہ چیر کہ رکھ دیا کہ جانا تو میں نے تھا میرے بیٹے میرے سامنے اس دنیا سے چلے گئے۔اولادیں والدین کے بچھڑ جانے پر صبر کرلیتی ہیں مگر والدین اولادوں کے مر جانے پر صبر نہیں کر سکتے میری والدہ محترمہ میرے بھائیوں کے انتقال سے چند سال پہلے دنیا فانی سے رخصت کر گئیں میرے گاؤں کے معزز شخص نے تعزیت کے وقت مجھے کہا کہ اگر تمہارے جواں سال بھائیوں کی وفات کے وقت ان کی ماں زندہ ہوتی تو اس محلے کے درودیوار بھی روتے درخت نوحہ خواں ہوتے اور صبح وشام آپ کے گھر سے رونے کی آوازیں آتیں اور بجائے اس غم کو پالتے پالتے تمہاری ماں کا کیا حال ہوتا۔

گاڑی سٹاپ پر کھڑی ہوئی اوھیڑ عمر بزرگ خاتون کو گاڑی میں سوار کرانے ان کا جوان سال نواسہ آیا جب ما ں جی سیٹ پر بیٹھ گئیں تو انھوں نے اپنے نواسے کو کچھ رقم دینے کے لئے بٹوہ کھولا ایک خواجہ سرابھی پاس کھڑا ہوگیا ماں جی نے اپنے نواسے کو پچاس روپے دئیے تو خواجہ سرا نے ماں جی کو مخاطب کر کے کہا کہ مجھے بھی پچاس روپے دیں میں بھی کیسی کا پوتا ہو ں میری بھی دادی ہے کیا ہوا ہمیں گھر سے بے داخل کر دیا گیا اماں جی نے جھٹ سے پچاس روپے اسے دیے اور الودع کیا جب انسان کو دوسروں کے درد کو محسوس کرنا شروع کردے تو اسے ہر ایک سے ہمدردی ہوجاتی ہے

بات غم سے شروع ہوئی اور ہمدردی تک جا پہنچی میرے ایک دوست کے 10سال کے بچے کو جدا ہوئے ایک سال مکمل ہوا اتفاق سے میری ملاقات اس وقت ان سے ہوگئی بے ساختہ آنسوؤں کی جھڑی نے غم کا سماں باندھ دیا میرے بھول جانے کے مشورے نے تو ان پر قیامت ڈھا دی کہنے لگے کے کیا کیا بھلاؤں میں جس طرف دیکھو ں مجھے میرا بیٹا ہی دکھائی دیتا ہے مجھے ہر کام میں اپنے بیٹے کا عکس دکھائی دیتا ہے تنہائی میں تو اتنی مشکل ہو جاتی ہے کہ ضبط نہیں رہتا آنسو خشک ہونے کا نام نہیں لیتے جب اس کے ہم عمر بچوں کو دیکھتا ہوں تو دل چور چور ہوجاتا ہے غم زندگی کا حصہ ہے مگر جدانہ ہونے والا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں