قمرالسلام راجہ حلقہ میں سرگرم،نثار گروپ خاموش

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جو تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں انہیں 2018 میں سپریم کورٹ نے کرپشن کے الزامات کے تحت نااہل قرار دیتے ہوئے ان سے وزارت عظمیٰ کا قلم دان چھین لیا تھا اور ساتھ ہی ان کی پارلیمان کی رکنیت بھی ختم کر دی تھی ان کی نااہلی کے بعد میاں نواز شریف اور چوہدری نثار کے مابین ان بن ہوگئی تھی اور سابق وزیرداخلہ نے مسلم لیگ ن سے اپنی راہیں جدا کرلی تھیں جبکہ الیکشن2018 میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر جیپ کے نشان پر آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم انتخابی عمل سے گزر کر انکی جیب کے تین ٹائر پنچر ہوگئے تھے مسلم لیگ ن نے چوہدری نثار کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے حلقہ 59 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 10سے راجہ قمرالسلام کو ٹکٹ جاری کیا تھا تاہم انتخابی مہم کے دوران ہی راجہ قمر الاسلام پر صاف پانی منصوبے میں خوردبرد کے الزامات کے تحت مقدمہ بنایا گیا تھا اور عین انتخابات سے محض 30دن قبل نیب نے انھیں لاہور سے گرفتارکر لیا تھا اور 8ماہ تک پابند سلاسل رکھا تاہم راجہ قمر الااسلام کو محض اس لیے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا تاکہ انہیں الیکشن کی دوڑ سے باہر رکھاجاسکے راجہ قمرالااسلام کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے مذاکرات کے ذریعے صاف پانی کمپنی کے لئے لگائی گئی بولی کو1.18ارب روپے سے کم کروا کر 980ملین روپے پرلے آئے تھے تاہم پچھلے ہفتے پیر کے دن قمرالااسلام راجہ کو احتساب عدالت نے صاف پانی کیس میں باعزت بری کر دیا ہے جس سے یہ تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ انکی گرفتار ی اور کیس میں پھنسانا محض انتقامی کاروائی تھی مریم نواز‘ شہباز شریف‘ خواجہ سعد رفیق نے جھوٹے مقدمات میں سرخرو ہونے پر انہیں مبارک دی تھی رواں سال مئی میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اگر ہم این اے59 پی پی 10 کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے مابین انتخابی دنگل سجے گا جہاں تک چوہدری نثار علی خان گروپ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے انکی طرف سے ابھی تک کوئی سیاسی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی جس سے عوامی سطح پر یہ تاثر ملے کہ چوہدری نثار گروپ اگلے انتخابات میں طاقتور مزاحمتی گروپ کی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ چوہدری نثار نے بھی بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ابھی تک مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے بعض سیاسی حلقوں کو یہ بھی خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں چوہدری نثار بطور امیدوار کے خود حصہ نہ لیں بلکہ این 59کی نشست پر اپنے بھتیجے لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ افتخار علی خان مرحوم کے بیٹے یا پھر اپنے بیٹے تیمور علی خان کو الیکشن میں اتاریں یاد رہے2018 کے عام انتخابات میں راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 63 میں چوہدری نثار کو پاکستان تحریک انصاف کے غلام سرور خان نے شکست سے دوچار کر دیا غلام سرور نے 64 ہزار301 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ چوہدری نثار کو 48 ہزار497 ووٹ ملے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 59 سے بھی تحریک انصاف کے غلام سرور خان چوہدری نثار علی خان کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تھے چوہدری نثار کو صوبائی حلقے پی پی 12 سے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے انہوں نے حلقے میں 11ہزار 99 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی کے واثق قیوم نے27 ہزار 351ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی ناقابل شکست سمجھے جانے والے چوہدری نثار2018 میں تین حلقوں سے شکست کے بعد بلآخر صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی دس سے راجہ قمرالااسلام کے مقابلے میں چوہدری نثار 53145 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ حلقے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی زعما کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیپ گروپ کے اندر دھڑے بندی اس وجہ سے بھی بڑھ رہی ہے کیونکہ عوام کو یہ بات واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج کے مطابق پنجاب اور مرکز میں بظاہر مسلم لیگن اکثریتی نشستیں جیت کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی جبکہ دوسری طرف اس حلقے میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کی صفوں میں انتشار اور اختلافات کا عنصر نمایاں نظرآتا ہے اور پی ٹی آئی بظاہر تین دھڑوں میں تقسیم نظرآتی ہے ایک دھڑا وفاقی وزیر غلام سرور خان کی حمایت کرتا ہے مگر ان کی اکثریت کا جھکاؤ مسلم لیگ ن پنجاب کے نائب صدر قمر الااسلام کیجانب زیادہ ہے دوسرا دھڑا بھی غلام سرور خان اور کرنل اجمل صابر کے مابین سیاسی کھینچا تانی سے بیزار ہوکر مسلم لیگ کی طرف دیکھ رہا ہے جبکہ حکمران جماعت کی حالیہ تین سال کی کارگردگی بھی عوام کے سامنے ہے راجہ قمرالااسلام کی صاف پانی پروجیکٹ میں کرپشن کے مقدمات سے بریت سے انکی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوگا جبکہ سب سے بڑی وجہ نیب کی حراست میں رہنے کے باوجود ان کا پارٹی قیادت کیساتھ ثابت قدم رہنا بھی ایک اہم نقطہ ہے جس سے مسلم لیگ کے نظریاتی کارکنان کی نظر میں راجہ صاحب کے نہ صرف سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان پر عوام کا اعتماد بھی بڑھا ہے راجہ قمرالااسلام اپنے حلقہ انتخاب این اے 59 اور پی پی 10میں خاصے سرگرم ہیں اور آئے روز عوامی میٹنگز میں شرکت سے نون لیگ کے گروپس میں اتحاد اور حمایتی ووٹرز میں دن بدن اضافہ ہوتاجا رہا ہے حالیہ دنوں میں انکی مصروف سیاسی سرگرمیاں اور دوسری طرف چوہدری نثار علی خان کی طویل خاموشی اور غلام سرور خان کی حلقے کی عوام میں عدم دستیابی راجہ قمرالاسلام کو نہ صرف بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کی سیاسی سپورٹ میں فائدہ دے گی بلکہ آنے والے عام انتخابات میں راجہ قمرالااسلام کی کامیابی کے امکانات بھی اب کافی روشن ہیں یاد رہے راجہ قمرالاسلام کا شمار ان اعتدال پسند اور شریف النفس سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ مہذب سیاسی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے پارٹی کارکنوں کو متحد اور عوامی فلاح کو ہمیشہ مقدم سمجھا تو راقم کی نظر میں ایسے سیاست دان کو انتخابات کے موقع پر عوامی حمایت ملنا ایک فطری عمل ہے جس نے اپنی سیاسی زندگی پارٹی کی قدرومنزلت میں اضافے اور عوامی خدمات کیلیے وقف کررکھی ہوایک فلاحی ریاست کی تعمیروترقی کیلیے منتخب عوامی نمائندوں کا شریف النفس تعلیم یافتہ‘ایماندار اور پارٹی کا وفادار ہونا ایک بنیادی شرط ہے اگر ہم ان جمہوری اصولوں کو سیاست کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کریں تو راجہ صاحب اس معیار پر پورا اترنے میں حق بجانب ہیں یادرہے قمرالااسلام نے2013 کے عام انتخابات میں بطور ایم پی اے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ 41000 کی برتری حاصل کی تھی مگر2018 کے عام انتخابات کے موقعہ پر نیب نے ان پر 84 واٹرٹریٹمنٹ پلانٹس کا ٹھیکہ مہنگے داموں دینے کا الزام عائد کرکے گرفتار کرلیا تھا جس سے انکی انتخابی مہم متاثر ہوئی تھی اور 8 ماہ جیل کی صعوبتیں اور سوا تین سال پنڈی سے لاہور ہر ہفتے احتساب عدالت کے چکر لگانے کے بعد وہ گزشتہ ہفتے نیب کی عدالت سے باعذت بری ہوکر عوام کی نظروں میں سرخرو ہو گئے ہیں جو انکی مستقبل کی سیاست کیلیے ایک نیک شگون ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں