قابل عظمت کتاب

قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الکریم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔

ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن پاک ہے محفوظ ہے قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی

۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک بنیاد پر متحد کیااور حسن کلام، روانی، فصاحت و بلاغت اور اعجاز و بیان کے ایسے شہ پارے پیش کیے جنہیں دیکھ کر فصحائے عرب ششدر تھے۔ نیز قرآن نے عربی زبان کو مٹنے سے بھی بچایا، جیسا کہ بہت سی زبانیں وقت کے گزرنے کے ساتھ ناپید یا زوال پزیر ہو گئیں جبکہ عربی زبان گزرتے وقتوں کے ساتھ مزید مالا مال ہوتی رہی اور قدیم و جدید تمام تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھا

.قرآن میں کل 114 سورتیں ہیں جن میں سے 87 مکہ میں نازل ہوئیں اور وہ مکی سورتیں کہلاتی ہیں اور 27 مدینہ میں نازل ہوئیں اور مدنی سورتیں کہلاتی ہیں۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن کو اللہ نے جبریل فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر محمدﷺ پر تقریباً 23 برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پیغمبر محمدﷺ چالیس برس کے تھے اور ان کی وفات سنہ 11ھ بمطابق 632ء تک جاری رہا۔ نیز مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وفات نبوی ﷺکے بعد صحابہ نے اسے مکمل اہتمام و حفاظت کے ساتھ منتقل کیا اور اس کی آیتیں محکمات کا درجہ رکھتی ہیں نیز قرآن تا قیامت قابل عمل اور ہر دور کے حالات کا حل پیش کرتا ہے۔

قرآن کا سب سے پہلا ترجمہ سلمان فارسی نے کیا۔ یہ سورۃ الفاتحہ کا فارسی میں ترجمہ تھا۔ قرآن کو دنیا کی ایسی واحد کتاب کی بھی حیثیت حاصل ہے جو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، جسے مسلمان روز ہر نماز میں بھی پڑھتے ہیں اور انفرادی طور پر تلاوت بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمان ہر سال رمضان کے مہینہ میں تراویح کی نماز میں کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کی عام زندگی، عقائد و نظریات، فلسفہ اسلامی، اسلامی سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات اور علوم و فنون کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے

۔وفات نبویﷺ کے بعد عمر بن خطاب کی تجویز پر، خلیفہ اول ابو بکر صدیق ؓکے حکم سے اور زید بن ثابت انصاری کی سربراہی میں قرآن کو مصحف کی شکل میں یکجا کیا گیا۔ عمر بن خطاب
کی وفات کے بعد یہ نسخہ ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رہا۔ خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے جب لہجوں کے اختلاف کی بنا پر قرات میں اختلاف دیکھا تو حفصہ سے قریش کے لہجہ میں تحریر شدہ اُس نسخہ کے نقل کی اجازت چاہی تاکہ اسے معیار بنایا جائے۔ اجازت ملنے کے بعد انہوں نے مصحف کی متعدد نقلیں تیار کرکے پورے عالم اسلام میں بھیج دیں اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس مصحف کی پیروی کریں۔ ان نسخوں میں سے ایک نسخہ انہوں نے اپنے پاس بھی رکھا۔ یہ تمام نسخے اب مصحف عثمانی کہلاتے ہیں۔ بیشتر محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ تمام نسخے ابو بکر کے تیار کردہ نسخہ کی ہو بہو نقل تھے، ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔ قرآن پیغمبر محمد کا معجزہ ہے اور اس کی آیتیں تمام انسانوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کرتی ہیں کہ کوئی اس کے مثل نہیں بنا سکتا، نیز یہ قرآن پیغمبر محمد کی نبوت کی دلیل اور صحف آدم سے شروع ہونے والے اور صحف ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل تک آسمانی پیغام کا یہ سلسلہ قرآن پر ختم ہوا۔ قرآن کی تشریحات کو اسلامی اصطلاح میں تفسیر کہا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں کی جاتی رہی ہیں۔ قرآنی تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرف اردو زبان میں تراجم قرآن کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔قرآن مجید اس امت کے لیے لافانی کتاب، ان کا دستور حیات اور رہنما و رہبر ہے۔ نیز قرآن دعوت اسلامی کی بھی لازوال کتاب اور ہر دور میں اس کی رہنما ہے۔ قوم، معاشرہ، خاندان اور فرد ہر ایک کی زندگی میں اس کی خاصی اہمیت ہے۔

قرآن تعمیر انسان اور اس کی شخصیت، ضمیر اور عقل و فکر کی تعمیر سے بحث کرتا اور ایسے قوانین وضع کرتا ہے جن کی مدد سے خاندان کے ڈھانچے کو محفوظ، امن و سکون سے پُر اور محبت و عافیت کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ نیز قرآن انسانی معاشرے کی تعمیر بھی ان خطوط پر کرتا ہے جن پر چل کر ایک معاشرہ اپنی مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے۔مسلمانوں کے نزدیک کوئی مسلمان قرآن سے مستغنی نہیں ہو سکتا، یہی کتاب اس کا سرمایہ زندگی، سرمہ بصیرت اور رہبر کامل ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کی ہر شے اس کتاب سے مربوط ہے، اسی سے ان کے عقائد ماخوذ ہیں، یہی ان کی عبادتوں کا تعارف کراتی اور رضائے الہی کے حصول میں مددگار بنتی ہے۔ نیز اخلاق و معاملات میں جن امور کی رہنمائی درکار ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ جو مسلمان اس کتاب پر عمل نہیں کرتے وہ گمراہ ہیں اور ان کا انجام تاریک ہے۔ چنانچہ قرآن میں عقائد کا مفصل تذکرہ، عبادات مثلاً روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کے احکام، نیز خرید و فروخت، نکاح و طلاق، وراثت و تجارت کے احکام بھی درج ہیں۔ اخلاق و آداب کا بھی مفصل ذکر ہے۔قرآن وہ کتاب ہے جو سابقہ کتابوں کی تمام حق باتوں کا حکم کرتا اور ان پر عمل کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس کتاب میں گزشتہ قوموں، امتوں اور انبیا و رسولوں کی حکایتیں بھی بیان کی گئی ہیں قرآن کی بعض آیتیں اہمیت و فضیلت میں زیادہ ہیں، بعض آیتیں انہیں حسد اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہیں ان کا پڑھنا شیطان اور اس کے تسلط سے گھر اور انسان کو محفوظ رکھتا ہے قرآن ایک بڑی کتاب ہے۔ اس کی تقسیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں فرما چکے تھے اور یہ رہنمائی کر چکے تھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن کے بے شمار حافظ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان اور رمضان کے مہینوں میں قرآن کئی دفعہ ختم کرتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی ترتیب کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں