355

زکوٰۃ کی فرضیت

اسلام نے ہمیشہ حقوق انسانیت کوترجیح دینے کیساتھ ساتھ بھلائی کادرس دیابھائی چارہ کوترجیح دی،دکھ درد میں مبتلاء لوگوں کی دادرسی کادرس دیتاہے بھوکے کوکھاناکھلانے پراجروثواب کی خوشخبری سناتاہے کمزور غریب، لاچار، مفلس افرادکیساتھ صلہ رحمی کرنے کیساتھ ساتھ مالی تعاون کرنے کاحکم بھی دیتاہے ان احکام میں ایک حکم ایسابھی ہے جسے زکوٰۃ کہتے ہیں زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے فرض کے درجہ میں داخل ہے ایسافرض جس کی فرضیت کاانکارکرنے والاگویاقرآنی آیات کا انکار کرکہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے قرآن میں اللّٰہ نے نمازکیساتھ ساتھ زکوٰۃ کابھی ذکرکیازکوٰۃ کالغوی معنیٰ پاکیزہ کرناہے یعنی اپنے مال کوپاک کرناہے اسکامقصدغریبوں کی مددکرنامعاشرہ میں پریشان حال تنگ دست لوگوں کی مددکرنامعاشرتی فلاح وبہبود میں صاحب نصاب لوگوں کے ذریعہ سے کمزور، غریب افراد کی مالی مددکرناہے

یعنی مال مالداروں سے لیکرغریب افرادکومالک بناکران تک پہنچانا مقصودہے اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن زکوٰۃ بھی ہے جسکی فرضیت قرآن مجید سے واضح ہے زکوٰۃ ہر اس مسلمان شخص پرفرض ہے جوعاقل ہوبالغ ہو، آزاد ہو، اوروہ صاحب نصاب ہوزکوٰۃ دیتے وقت حقیقی وبنیادی مقصد یہ ہونا چا ہیے کہ انسان تقوی اختیار کرتے ہوئے اپنے مال کو پاک کرے چنانچہ سورہ الیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اس آگ سے اس پرہیزگار شخص کو بچالیاجائے گاجواپنامال (اللّٰہ کی راہ میں)دیتاہے کہ (وہ اپنے مال وجان کی) پاکیزگی حاصل کرے سورہ توبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے آپؐانکے اموال میں سے صدقہ وصول کیجئے اسکے باعث انہیں (گناہوں) سے پاک فرمادیں یہ اللّٰہ کاحکم ہے کہ اللّٰہ کی عطاء کی ہوئی دولت صرف مالداروں کے ہاں ہی نا گردش کرتی رہے بلکہ سورہ الحشرمیں ارشادباری تعالیٰ ہے مال تمہارے مالداروں کے درمیان ہی گردش ناکرتارہے

پاکیزگی سے مراد یہ ہے کہ جواللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے مال ودولت میں غریبوں کاحق مقرر کیاہے اسکو خلوص دل سے رضامندی سے انکاحق انکوباعزت طریقہ سے پہنچائیں صاحب نصاب اس شخص کوکہاجائے گا جو مسلمان ہو، عاقل ہو، بالغ ہو، آزاد ہو، ضرویات اصلیہ سے زائداسکے پاس مال ہو اس مال پرسال بھی گزرجائے توایسے شخص پر زکوٰۃ فرض ہے نصاب سے مرادیہ ہے کہ ساڑھے سات تولہ سوناہویاساڑھے باون تولہ چاندی ہویادونوں کی مالیت کے برابریادونوں میں سے ایک کی مالیت کے برابرنقدی یاسامان تجارت ہواسکے پاس یہ سب چیزیں ملاکریاان میں سے بعض ملاکرمجموعی مالیت کامالک اگر کوئی ہوگاتوایسے شخص پر زکوٰۃ فرض ہوگی یہ توہواایساشخص جو زکوٰۃ اداء کرے گااب سوال یہ پیداہوتاہے کہ دوسراوہ شخص کون ہے جوزکوٰۃ لے سکتاہے

توایساغریب شخص جو غریب ہوضروت مندہواسکی ملکیت میں ضرورت اصلیہ سے زائدنصاب ناہو، ناتووہ سیدہو، ناوہ ہاشمی ہوایسے شخص کوزکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ اداء ہوجائیگی اورایسا ضرورت مند زکوٰۃ لے بھی سکتاہے لیکن اگرکسی کے پاس کچھ زیوراورضرورت سے زائدسامان، نقدی، موجود ہے جونصاب کوپہنچ جائے توایسے شخص کوناتوزکوٰۃ دیناجائزہے اورناہی ایسے شخص کوزکوٰۃ لیناجائزہے زکوٰۃ کے مستحق لوگوں میں فقیر، مسکین، عامل، رقاب، غارم، فی سبیل اللّٰہ اور ابن السبیل شامل ہیں فقیراسے کہاجائے گاجسکے پاس کچھ مال ہے مگراتنانہیں کہ نصاب کوپہنچ جائے، مسکین وہ شخص ہے جسکے پاس کچھ بھی ناہویہاں تک کہ کھانے پینے کواوربدن چھپانے کوبھی ناہولوگوں سے سوال کامحتاج ہو، عامل اسے کہاجائے گاجسے بادشاہ اسلام نے زکوٰۃ وعشروصول کرنے کیلئے مقررکیاہو، رقاب سے مرادغلامی سے گردن رہاکراناہے

مگراب ناتوغلام ہیں اورناہی اس مدمیں رقم صرف کرنے کی نوبت آتی ہے غارم سے مرادایساشخص ہے جس پرقرض چڑھ جائے اسے اتارنے کیلئے نصاب باقی نارہے فی سبیل اللہ سے مرادایسا شخص جوقتال فی سبیل اللہ کیلئے جاناچاہے لیکن رقم ناہوسامان ناہو ان سب کوزکوٰۃ دینا لینا جائز ہے اگر رشتہ داروں میں کوئی ایساشخص ہے جو مستحق زکوٰۃ ہے تواسے زکوٰۃ دینے پردہرا اجرملے گاایک تو زکوٰۃ کی ادائیگی پر دوسراصلہ رحمی پر مدارس کے غریب طلبہ وطالبات بھی اسکے بہترین مستحق ہیں بعض لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے سمجھتے ہیں کہ صرف رمضان المبارک میں ہی زکوٰۃ دینی چاہیے انکویہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ زکوٰۃ کاتعلق رمضان المبارک کیساتھ نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ کاتعلق سال مکمل ہونے کیساتھ ہے مگرزکوٰۃ رمضان المبارک میں ادائیگی پرثواب زیادہ ہے لیکن زکوٰۃ فرض ہونے کے بعدبھی اگر کوئی اداء نہیں کرتاتواسے قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں

جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ توبہ جولوگ زکوٰۃ اداء نہیں کرتے انکے مال کوجہنم کی آگ میں گرم کرکہ اس سے انکی پیشانی، پہلو، اورپیٹھوں کوداغاجائے گادوسری جگہ سورہ آل عمران میں ارشاد ہے ایسے شخص کے مال کوطوق بناکراسکے گلے میں ڈال دیاجائے گابخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ رسول اکرم شفیع اعظمؐ کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کامال قیامت کے دن ایسے زہریلے سانپ کی شکل میں آئے گا جسکے سرکے بال جھڑچکے ہوں گئے اسکی آنکھوں کے اوپردونقطے ہوں گئے پھروہ سانپ اس کے گلے کاطوق بنادیاجائے گاپھروہ اسے پکڑکرکہے گامیں تیرامال ہوں میں تیراجمع کیاہواخزانہ ہوں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ایسے شخص کیلئے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گئی اس سے ایسے شخص کی پیشانی پہلو اورسینہ کو داغاجائے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں