ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے آخری ایام

پاکستان کی سیاسی تاریخ کی یہ کہانی 18مارچ 1978ء کو شروع ہوئی جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی یوں ملک کے سابق وزیر خارجہ، سابق صدر اور سابق وزیر اعظم نے کوٹ لکھپت جیل کے قیدی کی حیثیت اختیار کر لی یہ واقعہ گیارہ نومبر 1974ء کو لاہور میں پیش آیا نواب محمد احمد، احمد رضا قصوری کے والد تھے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ کیس سرد خانے میں پڑا رہا مگر پانچ جولائی1977ء کو مارشل لاء نافذ ہو اتو اس کیس کو دوبارہ اٹھایا گیا تین ستمبر کو معزول وزیراعظم کو 70 کلفٹن سے گرفتار کر لیا گیا اکتوبر 1977ء میں یہ کیس لوئر کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ پہنچ گیا اور اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی بھٹو نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا جب سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو بھٹو کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے راولپنڈی جیل منتقل کر دیا گیا اور یہی وہ جگہ تھی جہاں پر انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے پنڈی جیل میں ایک اہم قیدی کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے کوٹھڑیوں کے کچے فرش کو کھود کر لوہے اور کنکریٹ کا مضبوط فرش بنایا گیا تاکہ سرنگ کھودنے کا خدشہ نہ رہے چھت توڑ کر فرار کا امکان ختم کرنے کے لئے آہنی چھت بنائی گئی بھٹو کے سیل میں جاسوسی کے آلات نصب تھے اور جیل کی سیکورٹی پر فوجی جوان تعینات تھے ذوالفقار علی بھٹو کو لگتا تھا کہ یہ مقدمہ فقط ایک سیاسی سٹنٹ ہے وہ یقین سے کہا کرتے تھے کہ میرے سر کی قیمت پاکستان ہے مگر درحقیقت وہ غلطی پر تھے پنڈی جیل جس نے کئی عجیب مناظر دیکھے بیگم بھٹو کے سامان کی تلاشی بے نظیر کا اپنی سالگرہ کا کیک لئے جیل کے آہنی دروازے پر دستک دینا، بھٹو سے تمام سہولیات چھن جانا اور آخر کار ایک فاتح کاموت سے ہمکنار ہونا چھ فروری 1979ء کو پنڈی جیل کی بلند اور خار دار دیوار یں عبور کر کے ایک غیر متوقع خبر ذوالفقار علی بھٹوتک پہنچی سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم کی اپیل مسترد کر دی تھی 24مارچ1979ء کو سپریم کورٹ میں نظر ثانی پٹیشن بھی نامنظور ہوگئی اب بھٹو کو اپنی گرتی ہوئی صحت کے ساتھ اپنے تاریک سیل میں موت کا انتظار کرنا تھا یہی وہ جگہ تھی جہاں ایک طوفانی را ت وہ اسٹریچر پر لیٹے پھانسی گھاٹ کی سمت جانے والے تھے تین اپریل کی صبح جب بھٹو بیدار ہوئے تو وہ یکسر لاعلم تھے کہ یہ اُن کی زندگی کا آخر ی دن ہے جیل حکام کو اُن کی موت کا پروانہ وصول ہو چکا تھا سورج غروب ہوتے ہی جیل کی ٹیلیفون لائنیں کاٹنے کے احکامات تھے صرف ایک وائر لیس سیٹ کام کر رہا تھا سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اچانک تین اپریل کی صبح ملاقات کی اطلاع دی گئی اس موقع پر جب بیگم بھٹو نے سپر ٹینڈنٹ پولیس یار محمد سے پوچھا کہ یہ ملاقات کس سلسلے میں ہے تو انہیں جواب دیا گیا کہ میڈم یہ آخری ملاقات ہے ملاقات ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی اور دو بجے تک جاری رہی بھٹو سیل کے اندر فرش پر بیٹھے تھے سلاخوں کے ادھر ایک لوہے کی کرسی پر بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو موجود تھیں بالکل خاموش اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے اس ملاقات میں وہ لمحہ بھی آیا جب بھٹو نے جیل سپر ٹینڈنٹ کو بلایا اور پوچھا کہ کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ جواب ملا کہ جی سر سب ختم ہو چکا ہے تین اپریل کی ملاقات کے بعد جب ماں بیٹی باہر آئیں تو انہوں نے کرنل رفیع الدین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی بیگم بھٹو، جنرل ضیاء الحق جو کرنل قذافی اور برطانوی وزیر اعظم کی بھٹو سے متعلق اپیل اور درخواست رد کر
چکے تھے کے نام رحم کی آخری اپیل کرنا چاہتی تھیں رحم کی اپیل کی اطلاع جب جنرل ضیاء الحق تک پہنچی تو اس اپیل کا بھی وہی نتیجہ نکلا جو اس سے پہلے کی اپیلوں کا نکلا تھا فیصلہ ہو چکا تھا چھ بج چکے تھے ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھڑی میں زمین پر پڑے گدے پر دراز تھے سپر ٹینڈنٹ جیل یار محمد، سیکورٹی بٹا لیں کمانڈر کرنل رفیع الدین، مجسٹریٹ درجہ اوّل مسٹر بشیر احمد اور جیل ڈاکٹر صغیر حسین نے سیل میں آکر انہیں بلیک وارنٹ پڑھ کر سنایا بھٹو نے لیٹے لیٹے یہ حکم سنا اُن کے چہرے پر کوئی اندیشہ نہیں تھا انہوں نے کرنل رفیع کو مخاطب کیاکہ رفیع! یہ ڈراما کھیلا جا رہا ہے؟ جواب میں افسر نے کہا کہ آخری حکم مل چکا ہے آپ کو پھانسی دی جا رہی ہے وقت آہستہ آہستہ کر کے گزرتا رہا جلادتا را مسیح کو لاہور سے راولپنڈی جیل پہنچا دیا گیا راولپنڈی میں واقع مسجد کے خادم حیات محمد کو یہ کہہ کر کہ ایک میت کو غسل دینا ہے، پنڈی جیل کی اس کوٹھڑی میں دھکیل دیا گیا جہاں تار ا مسیح اگلے احکامات کا منتظر تھا جیل حکام بھٹو کے سیل تک گئے مجسٹریٹ نے اُن کی وصیت کے بارے میں پوچھا مگر وہ کچھ لکھ نہ سکے اسی اثنا میں سپر ٹینڈنٹ کے حکم پر چار آدمی اندر داخل ہوئے وہ ایک دل سوز منظر تھا بھٹو پر نقاہت طاری تھی جو شخص کل تک عالم اسلام کا اہم ترین رہنما تصور کیا جاتا تھا اسے اسٹریچر پر پھانسی گھاٹ کی سمت لے جایا جا رہا تھا آخر وہ لمحہ آگیا ذوالفقار علی بھٹو بے تاثر چہرہ لئے دار پر کھڑے تھے وہ اس موت سے چند لمحے دور تھے جو بھٹو کو دائمی زندگی بخشنے والی تھی ہتھکڑی کھول کر بھٹو کے ہاتھ پیچھے باندھ دیے گئے تارا مسیح نے چہرے پر سیاہ ماسک چڑھا دیا دو بجکر چار منٹ پر جلاد نے لیور دبایا بھٹو ایک جھٹکے سے پھانسی کے کنوئیں میں گرے پھانسی گھاٹ میں بہت دیر تک خاموشی رہی، گہری اور اُداس خاموشی-بھٹو کی لاش اتار دی گئی اور چار اپریل1979ء کو صبح سات بجے آل انڈیا ریڈ یو نے سب سے پہلے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر نشر کی بھٹو کے ٹرائل پر سوالات اٹھے ہائی کورٹ کے جس بنچ نے بھٹو کا مقدمہ سنا اس کی سربراہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کر رہے تھے جنہیں ضیاء الحق نے لگایا تھا سپریم کورٹ میں بھٹو کا کیس سننے والے جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں انہیں بھٹو کا دشمن قرار دیا تھا جسٹس نسیم حسن شاہ کا یہ بیان انتہائی اہم ہے کہ بھٹو کے وکیل نے اپنے دلائل سے ججز کو ناراض کر دیا تھا ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ امریکہ بھٹو صاحب سے ناراض تھا اور انہیں نشان عبرت بنانا چاہتا تھا اس ضمن میں ہنری کسنجر کی بھٹو کو دھمکی اور سابق امریکی اٹارنی ریمزی کلارک کا نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والا بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس میں وہ بھٹو کے اقتدار سے محرومی کو امریکی آشیر یاد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں بھٹو کو سزا ئے موت سنا نے والے اور بھٹو کی لاش وصول کرنے والے دونوں کو ہی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایوب خان کی کابینہ سے اپنا سیاسی کیریئر شروع کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو اپنی موت کے بعد یوں امرہو جائے گا یہ بھٹو کی موت ہی تھی کہ جس نے پاکستان پیپلز پارٹی میں نئی روح پھونکی یہ بھٹو کی موت ہی تھی کہ جس نے اس جماعت کو تین بار اقتدار دیا یہ بھٹو کی موت ہی تھی کہ جس نے بے نظیر بھٹو کو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنایا اور یہ بھٹو کی موت ہی تھی جس نے خود ذوالفقار علی بھٹو کو زندہ رکھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں