columns 226

خدا کو کیوں مانیں

تحریر:محمد شہزاد نقشبندی
لفظ دہریت اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے اور اسلامی اصطلاح میں بھی ایک ایسے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے جو خالق کی تخلیق کا منکر ہو وہ شخص خدا کا قائل ہو نہ ہی اس کی صفات کا قائل ہو اسے ملحد یا دہریہ کہا جاتا ہے یہ لوگ عموماً مادے کو غیر فانی اور متشکل تسلیم کرتے ہیں ان کاخیال ہے کہ زمانہ ازلی اور ابدی ہے اور اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں یہ جزا و سزا کے قائل نہیں وہ معقولات کو نہیں مانتے صرف محسوسات کے قائل ہیں ان کے مطابق تمام تر مخلوقات و تخلیقات ازخود سے ہیں اور ان کا انتظام وانصرام از خود ہی چل رہا ہے یہ ایسا نظریہ ہے جو انسان کو اس کے دین اور خدا کی ذات سے بیگانہ کر دیتا ہے پہلے تو یہ الحاد صرف اور صرف ان علاقوں تک محدود تھا جس کے باشندے کسی ایک خاص مذہب کے پیروکار نہیں تھے کسی ایک مذہب کی تعلیمات عام نہیں تھیں یعنی جہاں پر کسی مذہب کے پیروکار اکثریت میں نہ تھے جیسے چین اور اس کے ملحقہ علاقے وغیرہ صنعتی انقلاب کے بعد یہ فتنہ آہستہ آہستہ یورپ میں سرایت کرنا شروع ہوا اس انقلاب نے یورپ کے اندر مذہب کو سخت ضرب لگائی جس سے مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی جوں ہی مذہب کی گرفت کمزور ھوئی تو یورپ میں لوگ پہلے ہی مذہب سے بے زار تھے ان کو اس سائنسی ترقی نے ایک نئی سوچ دی اور فکر دی کچھ لوگوں نے سائنس اور مذہب کا تقابلی جائزہ لینا شروع کر دیا اس تقابلی جائزے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی کیونکہ انجیل اور تورات نے موجودہ سائنسی نظریات کی تصدیق کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کی یعنی تورات و انجیل میں ان سائنسی علوم و فنون کے متعلق کوئی آگاہی موجود نہیں تھی جب نوجوان نسل کو ان کے مذہب نے ان جدید علوم جدید فکر کے متعلق کوئی راہنمائی نہیں کی توان کے اندر مذہب اور اس کی تعلیمات کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر دیے یہ شکوک وشبہات آہستہ بڑھتے چلے گے اور انہی شکوک نے آخر کار وجود خدا اور مذہب کا انکاری بنا دیا انہوں نے انہی شکوک وشبہات کو ایک اچھے لباس سے مزین کیا اور انتہائی خوبصورت پیرائے میں ان لوگوں کی طرف بھیج دیا جو پہلے ہی تھوڑے دین سے متنفر تھے تو انہوں نے اس کو قبول کر لیا اور کہنا شروع کر دیا کہ یہ نظام ہست و بود یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا اس طرح یہ بغاوت کی تحریک یورپ میں بالخصوص اور ہر جگہ بالعموم چل رہی ہے یہ اسی تحریک کے تانے بانے ہیں جو کبھی میرا جسم میری مرضی کے نام سے سامنے آتے ہیں تو کبھی ھم جنس پرستی کو سامنے رکھ کر بات کی جاتی ہے یہ ساری باتیں اپنے آپ کو دین کے بندھن سے آزاد کرنے کی کوشش ہے ان نظریات کے حامل لوگوں کے دو الگ طبقات ہیں 1۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ماڈرن ہے یا ممکنہ طور پر بے راہ روی کا شکار ہے دین دینی اقدار اور دینی تعلیمات سے زیادہ آشنا ہی نہیں ہے 2۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جن کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ معلوم نہیں ہم مذہب کو کیوں مانتے ہیں شاید یہ پرانے دور کی روایات ہیں جن میں ہم بندھے ہوئے ہیں آج سائنسی دور ہے ہمیں اب دین اور مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ہے دقیانوسی روایات کلچر کی نہیں بلکہ نئے دور نئی روایات کلچر اورسیکولر ازم کی ضرورت ہے یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہب ترقی کی راہ میں حائل ہے نہیں ہر گز نہیں اتنی بات ضرور ہے کہ مسلمان نوجوان نسل جن کے نظریات کی تصدیق کر رہی ہے جن کی پیروی کر رہی ہے جن کی باتوں کو سن کر اپنے نظریات بدل رہی ہے واقعتاً ان کا دین ومذہب سائنسی علوم و فنون ٹیکنالوجی میں رکاوٹ تھا اسی لیے اس معاشرے نے اس سے بغاوت کی جب اس نے بغاوت کی تو انہوں نے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردیں جبکہ مسلمانوں کے ساتھ الٹ ہوا جب تک یہ دین کے ساتھ جڑے رہے تب تک ترقی کی منازل طے کرتے رہے کیونکہ ہمارا دین ہماری مذہبی کتاب قرآن مجیدہمیں باربار غور وفکر کرنے کا حکم دیتا ہے غور وفکر نام ہے سائنس کا اسلام کی تو پہلی وحی ہی علم اور سائنسی علوم و افکار کے متعلق نازل ہوئی تھی وہ کیسے رکاوٹ ہو سکتا ہے ہم نے دوسروں کی باتیں سنیں ہیں اپنے دین کا مطالعہ نہیں کیا مسلمان نوجوانوں نے ان کی چکا چوند ترقی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا کہ ان کی مذہب سے دوری ہی ترقی کا مرہون منت ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے حکمران اور ادارے اپنے کاز اپنے ملک اپنی عوام کے ساتھ کتنے مخلص ہیں جبکہ ہمارے حکمران الاماشاء اللہ سارے چور اچکے ہیں ہم ترقی کیسے کریں گے نہ انہوں نے اپنے دین کا مطالعہ کیا جس سے ان کو پتہ چلتا کہ ہمارا دین تو قیامت تک چلنے والا ہے لیکن یہی شکوک وشبہات امت مسلمہ کی نوجوان نسل کے ذہن کو پراگندہ کرسکتے ہیں اور یہی چیز ان کو دین سے دور کر سکتی ہے اس فتنہ کو بھانپتے ہوئے اسی نوجوان نسل کے ان ہی سوالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس اعتکاف کے موقع پر اپنے خطبات کا موضوع ہم خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں ہی رکھا آپ کے خطبات کی یہ سیریز چھ دن پر مشتمل ہے جو تقریباً تیرہ چودہ گھنٹوں کو محیط ہو گی آپ نے ان خطبات کو انتہائی سلیس زبان میں بیان کیا تاکہ ایک ان پڑھ شخص بھی بڑی آسانی کے ساتھ ان کو سمجھ سکے میں تمام احباب سے گزارش کروں گا کہ یہ آپ یہ خطاب یوٹیوب پر جا کر لازمی سنیں یہ قرآن اور جدید ترین سائنسی تحقیقات کا تقابلی جائزہ ہے آپ یہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ جن چیزوں کو سائنس آج ثابت کر رہی ہے قرآن وحدیث نے وہ تمام چیزیں آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کر دیں تھیں آپ کے ایک خطاب کا موضوع تھا کائنات کی تخلیق اور اس کا اختتام قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں ایک خطاب کا عنوان تھا انسان کی تخلیق رحم مادر کے اندر کیسے اور کن مراحل کو طے کر کے ہوتی ہے آپ پہلی بار سنیں گے کہ بچہ کیسے اور بچی کیسے پیدا ہوتی ہے ایک خطاب کا عنوان تھا خلیہ اور ڈی این اے الغرض ان کے چھ خطاب جدید ترین سائنسی تحقیق اور قرآن کے بیان کردہ حقائق پر تھے جو ملحدین کے جملہِ اعتراضات کا ان ہی کی زبانی یعنی سائنس کی روشنی میں دیا ایک بار آپ سن لیں یقین جانیں آپ کو مسلمان ھونے پر فخر ہونے لگے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں