169

استاد کو عزت دو

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ بیجا لارڈ پیار اور سختی نہ کرنے سے اولاد خراب ہو جاتی ہے۔کچھ نہ کچھ والدین کی طرف سے سختی ضرور ہونی چاہیے تاکہ بچوں اور والدین میں فرق پایا جائے اور خاندانی نظام قائم رہے۔اسی طرح اساتذہ کو بچوں کا روحانی باپ کہا جاتا ہے۔کیونکہ بچوں کا زیادہ تر وقت اپنے اساتذہ کے ساتھ سکول میں گزرتا ہے۔اس طرح ایک استاد بچے کی نفسیات سے واقف ہو جاتا ہے۔

راقم کا تعلق بھی پیشہ معلمی سے ہے۔اب سکولوں میں ”مار نہیں پیار“ کا سلوگن چل رہا ہے۔احکام بالا کی طرف سے اس پر پورے زور و شور سے پابندی کروائی جا رہی ہے۔اب جزا و سزا والا تصور تقریباً ختم ہوگیا ہے۔اب سکول کی وال چاکنگ بھی کی گئی ہے کہ ”مار نہیں پیار“ ہر طرح کی سزا و جزا پر پابندی لگا دی گئی ہے۔جب ہمارا یا ہم سے پہلے کا دور تھا تو ایک استاد بہت پاور فل ہوا کرتا تھا۔استاد عزت و احترام کے مرتبے پر فائز ہوا کرتا تھا

۔بچوں کو غلطی پر استاد صاحب کی طرف سے سرزنش ضرور ملتی تھی۔ کوئی بھی بچہ غلطی سے بھی اپنے گھر میں یہ شکایت نہیں لگاتا تھا کہ استاد صاحب کی طرف سے سرزنش ہوئی ہے کیونکہ اس کو پتہ ہوتا تھا کہ گھر والوں سے بھی ڈبل سزا مل سکتی ہے۔والد کو پتہ ہوتا تھا کہ میرے بچے نے ضرور غلطی کی ہوگی جس سے استاد صاحب کی طرف سے سزا ملی ہے۔اب موجودہ دور کے ساتھ ادھر بھی جدت آ گئی ہے

۔اب سکول میں ٹیچر بالکل بے بس نظر آتا ہے۔پڑھائی پر تو سزا کی تو دور کی بات اب تو کسی بچے کی بدتمیزی پر بھی ایک استاد گونگا اور خاموش رہے گا۔اب سوشل میڈیا کا دور ہے کچھ بھی ہو جائے آخر میں غلطی بچے کے بجائے ایک استاد پر ہوگی۔ایک مڈل اور ہائی کلاس کے بچے کو اس بات کا علم ہے کہ ”اب مار نہیں پیار“ ہے اس لیے انکے ہاتھ اساتذہ اکرام کے گریبانوں تک پہنچ چکے ہیں۔آئے روز اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی کے بے شمار واقعات پیش آ رہے ہیں۔ بات چار دیواری سے باہر نہ نکلے اسی وجہ سے اساتذہ کی طرف سے خاموشی کی جاتی ہے۔ایک استاد محکمانہ طور پر مطلوبہ رزلٹ بھی دینے کا پابند ہے

وہ بھی بغیر کسی سختی کے۔بے شک بچہ امتحان میں اپنی لاپرواہی کی وجہ سے نامکمل پیپر چھوڑے آئے۔ بچہ فیل ہونے کی صورت میں ایک استاد فیل ہو جائے گا۔اس کی پوری ذمہ داری ایک متعلقہ استاد پر ہوگی۔ والدین پوری طرح بری الزمہ ہیں وہ بے شک گھروں میں تعلیم کے معاملے پر اپنے بچوں پر توجہ نہ دیں۔انھوں نے پوری ذمہ داری اساتذہ پر ڈال دی ہے۔خدارا مغرب کی ایجوکیشن پالیسی سے نکالا جائے مغرب کی تہذیب مکمل کھوکھلی ہو چکی ہے ان کا عائلی نظام بالکل تباہ ہو چکا ہے۔وہ ہماری تہذیب کو بھی ختم کرنا چا رہے ہیں۔

یہاں اور وہاں کے حالات زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ کی رہنمائی ہمارے لیے کافی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے۔جب بچہ سات سال کا ہو اس کو نماز پڑھنا سکھائی جائے اور دس سال کا ہو جائے تو اس پر سختی کی جائے۔پھر اس طرح امام غزالی بھی سزا و جزا کے قائل تھے۔ اپنی ایجوکیشن پالیسی میں مغربی ایجوکیشن فلاسفرز کو چھوڑ کر اسلامی فلاسفرز کو فالو کیا جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں