حکومت اور اپوزیشن

پروفیسر محمد حسین/عمران خان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک سراب کی مانند ہیں سوچنا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں سراب کہاں سے آ گیا؟اردو اخبار اور کتابوں کا مطالعہ کرنے والوں کیلئے سراب نیا لفظ نہیں ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کے کچھ انگلش میڈیم رہنماؤں کیلئے سراب کا مطلب سمجھناذرا مشکل ہے یہ انگلش میڈیم سیاستدان اردو زبان میں تقریریں تو کر سکتے ہیں لیکن اردو لکھ اور پڑھ نہیں سکتے صحراؤں میں رہنے والے سراب سے دھوکہ نہیں کھا تے لیکن بڑے بڑے شہروں اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے سراب سے دھوکہ کھا جاتے ہیں دھوپ کی شدت میں جب صحرا کی ریت چمکتی ہے تو دور سے پانی کا تالاب نظر آتاہے لیکن جب پیاسا بھاگتا ہوا پانی کے پاس پہنچتا ہے تو وہاں ریت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا عمران خان ایک نئے پاکستان کا نعرہ لگا کے حکومت میں آئے تھے وہ ظلم و نا انصافی کے شکار مظلوموں کیلئے امید کی ایک کرن تھے لیکن جس طریقے سے انہیں حکومت میں لایا گیا اور پھر جس طرح انہوں نے پرانے پاکستان کے پرانے چہروں کو اپنے اردگرد اکٹھا کر کے حکومت چلانی شروع کی تو پہلے چھ ماہ کے اندر ہی پتہ چل گیا کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک سراب کے سوا کچھ نہیں عمران خان کو ریاستی اداروں کا بھرپور تعاون تھا انہوں نے اس تعاون کے ذریعے عوام کو مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی بلکہ انہوں نے ایک طرف اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کر دیں اور دوسری طرف عدلیہ اور میڈیا پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ابھی ان کی حکومت کا ایک سال پورا نہیں ہوا تھاکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے عمران خان کے خلاف مظاہرے شروع کر دئیے ستمبر 2020کے پہلے ہفتہ میں پاکستان بار کونسل نے اسلام آبادمیں ایک آل پارٹیزکانفرنس کا اہتمام کیاجس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف‘ بلاول زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور بہت سے دیگر رہنما شریک ہوئے کچھ دنوں بعد 20ستمبر 2020کو اسلام آباد میں ایک اور آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے نیا سیاسی اتحاد وجود میں آیا اس اتحاد کی چھبیس نکاتی قرارداد میں کھل کر مطالبہ کیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت بند کرے عدلیہ پر دباؤ ختم کیا جائے اور میڈیا پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام اور اس کی چھبیس نکاتی قراردادمقتدر حلقوں کیلئے غیر متوقع تھی حکومتی وزراء اور درجن بھر مشیروں اور ترجمانوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو غیرمتوقع طاقتوں کا آلہ کار قرار دے کر بوکھلاہٹ کا ثبوت دیا اور کچھ ہی دنوں بعد 28ستمبر 2020کو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گرفتار کرلیا گیا اس گرفتاری نے مفاہمت کے بیانیے کا خاتمہ کر دیا اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت مریم نواز کے ہاتھ میں آگئی 17اکتوبر کو گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ تھا اس جلسے میں ایک طویل عرصے کہ بعد عام لوگوں نے بڑے بھرپور انداز میں شرکت کی لیکن پی ڈی ایم کی قیادت بروقت نہ پہنچ سکی اس جلسے میں نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں فوجی قیادت پر بھرپور تنقید کی پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ کراچی میں ہونا قرار پایا یہ بھی ایک بڑا جلسہ تھا ا س جلسے کی میزبان پیپلزپارٹی تھی اس جلسے کے بعد پیپلزپارٹی کا لب ولہجہ بدلنا شروع ہوا پیپلزپارٹی نے تحریک عدم اعتماد کی بات شروع کر دی اور مسلم لیگ(ن) اسمبلیوں سے استعفوں پر زور دینے لگی اپوزیشن اتحاد کے اندر مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن)نے ایک خفیہ اتحاد بنا لیا پی ڈی ایم نے یکم فروری کولانگ مارچ کرنے کا اعلان کرنا تھا لیکن یہ اعلان 4فروری تک ملتوی ہو گیا لہذا میڈیا کے ایک حصے سمیت وفاقی وزراء‘مشیروں‘معاونین خصوصی اور ترجمانوں کی فوج نے پی ڈی ایم کو ناکام قرار دیا یقینا پی ڈی ایم کی حکمت عملی میں بہت سے نقائص موجود ہیں اور پی ڈی ایم بھی فی الحال ایک سراب سے زیادہ دکھائی نہیں دے رہی ہے لیکن عمران خان کی حکومت اس سراب سے بھی اتنی خوفزدہ تھی کہ 13دسمبر کو لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے سے ایک دن قبل شیخ رشید احمد کو وزیر داخلہ بنادیا گیا شیخ رشید صاحب مانیں یا نہ مانیں لیکن انہیں وزیر داخلہ‘عمران خان نے نہیں بنایا بلکہ پی ڈی ایم نے بنایا ہے اب پی ڈی ایم نے 26مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے اور استعفوں کا آپشن ختم نہیں ہوا ہے اس کے ساتھ پی ڈی ایم نے سینٹ الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن جیسے ہی پی ڈی ایم نے سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو عمران خان نے سینٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے بجائے اوپن بیلٹ سے کرانے کیلئے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کر دیا یہ ریفرنس کسی انجانے خوف کا اظہار تھا پھر خفیہ بیلٹ ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کا اعلان ہوا عمران خان جو حکومت میں آنے سے قبل کہاکرتے تھے کہ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈزدینے سے کرپشن بڑھتی ہے اب اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز بھی دے رہے ہیں عمران خان نے کبھی فارن فنڈنگ کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا لیکن پی ڈی ایم کے دباؤ پر یہ کہتے دکھائی دئیے کہ اس کیس کی سماعت ٹی وی کیمروں کے سامنے کرلی جائے لیکن نہ جانے وہ کون سے خوف کا شکار ہیں پی ڈی ایم کی کمزور حکمت عملی کے باعث عمران خان کی حکومت تو قائم ہے اور پانچ سال پورے کرنے کا امکان بھی ہے لیکن عمران خان کی اپنی غلطیوں کے باعث تحریک انصاف ماضی کا قصہ معلوم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اگر عمران خان کیلئے سب اچھا نہیں تو پی ڈی ایم کی دو جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کیلئے بھی سب اچھا نہیں آئین کے اندر ہی اندر ایسا بہت کچھ ہو سکتا ہے کہ عمران خان بھی بہت کچھ کھو سکتے ہیں اور پی ڈی ایم بھی بکھر سکتی ہے بھر تاریخ میں یہی لکھا جائے گا کہ ایک تھی پی ڈی ایم اور ایک تھی تحریک انصاف۔

اپنا تبصرہ بھیجیں