columns 103

جنرل یٰحی خان کے تاریخ ساز کارنامے

1977ء کے ماہ اگست میں پی ٹی وی کا ایک چھوٹا سا وفد پاک فوج کے سابق سربراہ یحییٰ خان کے گھر پہنچا جنرل یحییٰ مارچ 1969ء سے دسمبر 1971 ء تک صدر رہ چکے تھے وہ 1972 ء کے اوئل سے گھر کی اندر اپنی زندگی بسر کرتے رہے تھے اورگزشتہ پانچ برسوں کے دوران شاید ہی کبھی عوام کے درمیان دیکھے گئے ہوں وہ اپنے گھر میں نظر بند تھے اور وہ تقریبا گوشہ نشین ہو گئے تھے پی ٹی وی کے وفد کی سربراہی پی ٹی وی راولپنڈی کو مرکز کے سینئر اہلکار مرحوم برہان الدین حسن کررہے تھے وہ اپنے کیمرا مین اور ٹیکنیشنزکے ساتھ یحییٰ خان سے ملنے ان کے گھر پہنچے تھے انہیں جنرل ضیا الحق جو بغاوت کے ذریعے جولائی 1977 ء میں اقتدار میں آئے تھے ان کی مارشل لاء حکومت کے جانب سے یحییٰ خان سے انٹر ویوکرنے اورخصوصی طور کسی بھی طرح 1971ء میں ہونے والے سقوط مشرقی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کے حوالے سے گفتگو کروانے کا حکم دیا گیا تھا۔ یحییٰ خان ملک کے مشرقی حصے کی خون آ لود علیحدگی کے دوران فوجی سربراہ اور صدر تھے اور تھوڑے عرصے کے لیے ملک کو فوجی اسٹیبلشمنٹ اور مشرقی پاکستا ن کے بنگالی قوم پرستو ں جن کی قیادت شیخ مجیب الرحمن کر رہے تھے کے درمیان تناؤ کو ختم کرنے کی جدو جہد میں حزب اختلاف کے مرکزی جماعتوں کے رہنماوں میں سے ایک ایک ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام کرچکے تھے مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ 1970ء کے انتخابات میں اکثریتی نشستوں کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پورے مشرقی پاکستان میں کامیاب ہوئی تھی اور ایک طرف یحییٰ اور دوسری طرف بھٹو کے درمیان اور تیسری طرف مجیب کے ساتھ بات چیت ناکام ہوئی اور ذوالفقار بھٹو جن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے کا میاب ہوئی تھی نے دعوی کیا کہ کے اگر مجیب الرحمن کو اقتدار مل گیا تووہ بنگالی علیحدگی پسندوں کی حمایت کریں گے تو یحییٰ خان نے عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی مجیب الرحمان کو گرفتار کر لیا گیا اور مشرقی پاکستان میں کریک ڈاون کے احکامات جاری کر دیئے۔ جب خونحوار خانہ جنگی اور اس کے بعد بھارت جو بنگالی قوم پر ستوں کی حمایت کر رہا تھا کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا تب تلملائے ہوئے فوجی افسران کو ایک گروپ
نے یحییٰ خان کو استعفی دینے پر مجبورکیا اور اقتدار زوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا بھٹو ریاست اور حکومت کے سربراہ بن گئے اور خاموشی کے ساتھ یحییٰ خان کو ظاہری طور پر اُن کے اپنے تحفظ کی خاطر گھر پر نظر بند کر دیا وہاں پولیس کے صرف چند ہی اہلکار تعینات تھے اس کے بعد یحییٰ خان کو شاہد ہی کبھی دیکھا گیا ہو ایک سیاسی حلقے جوکہ اب تک تقسیم ہو چکا ہے نے سقوط مشرقی پاکستان کا الزام یحییٰ خان نااہلی پر ڈالا جبکہ دوسرے حلقے نے اس کا زمہ دار بھٹو کے تکبر اور خودپسندی کوٹھہرایا پا نچ سال بعد جولائی 1977ء میں بھٹو کی جمہوری حکومت جنرل ضیاالحق کی رخصت پسند فو جی بغاوت کے ذریعے ختم کر د ی گئی ضیاالحق بھٹو کو مقدمے میں پھسانے اور ان کی گرفتاری کو درست قرار دینے کے لئے ایک بہانے کی تلاش میں تھے اسی لیے انھوں نے گوشہ نشین سابق جنرل یحیٰ خان کا انٹر ویو لینے کی ہدایت کی تھی کہ یحییٰ خان سقوط پاکستان کے لیئے بھٹو کو ملزم ٹھہرائیں گے اور معزول وزیراعظم کے خلاف عدالت میں پیش کرنے کے لیے درکار ثبوت مل جائے گا یحییٰ خان نے اس حوالے سے بات کرنے سے انکار کر دیا کہ انہیں جو بھی بتانا تھا وہ سقوط مشرقی پاکستان کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ محمود الرحمن کمیشن بنا چکے تھے ضیاء الحق یحییٰ خان سے کچھ حاصل نہیں کر سکے مگر چند ماہ بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چلانے اور 1979ء میں ایک متنازع مقدمے کے زریعے بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے میں کا میا ب ہو گئے حالانکہ ضیاء الحق نے یحییٰ خان کی نظربندی ختم کر دی تھی مگر پھر بھی وہ گوشہ نشین ہی رہے1980 ء میں وہ خاموشی کے ساتھ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے تب اُن کی عمر 63برس تھی یحییٰ خان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں خیالات سے اخذ کیاجاتا ہے جو کہ 1972ء میں ان کی ہٹائے جانے کے بعد منظر عام پر آئے جب انہوں نے پوری طرح سے خا موشی اختیار کر لی تھی ان کی خاموشی اور گوشہ نشین کے دوران با ئیں بازونے ان پر مشرقی پاکستان میں ہنگامہ آرائی کے دوران غلطیاں کر نے اور بھارت کے خلاف جنگ ہارنے کا الزام عائد کیا دوسری جانب دائیں بازو نے انہیں فوج کو زوال پذیر اور اخلاقی طور پر زوال پذیر کرنے پر حقارت سے دیکھا ایسی ببانگ دہل الزام تراشیوں سے جو کہ گہری جڑیں پکڑ چکی تھیں سے ان کے چند اقدامات نظر انداز ہو گئے جو کہ اس وقت کی بڑ ے انقلابی اقدامات تھے یحییٰ خان نے برٹش انڈین آرمی کے
رکن طور پر دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا اور اٹلی میں انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا اور قیدیوں کی ظالمانہ کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا جسے مسولینی کی فاشسٹ حکومت اور ان کے جرمن نازی اتحادی چلا رہے تھے 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد یحییٰ نے فوج میں شمولیت اختیار کی 1965ء میں صدر ایوب خان نے انہیں میجر جنرل بنا دیا تھا اور بھارت کیخلاف 1965ء کی جنگ کے دوران انہوں نے ایک انفنٹری ڈویژن کی سربراہی بھی 1966ء میں ایوب خان نے کی انہیں پاک فوج کا کمانڈران چیف مقرر کر دیا 1965ء کی جنگ نے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے اور اس کی بعد شروع ہونے والے لسانی اور سیاسی تناؤ پیدا ہونے سے 1968ء میں حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریک کا آغا ز ہو گیا یحییٰ خان جن کا مسلح افواج کی اندر اثر کافی حد بڑھ چکا تھا نے نے ایوب خان کو استعفی دینے پر مجبور کیا ایوب خان مارچ1969ء میں حکومت سے دستبردار ہو گئے یحییٰ خان نے بطور صدر اقتدا رسنبھال لیا اور ملک میں دوسرا مارشل لاء نافذ کردیا یحییٰ خان نے پریس پر عائد پابند یاں نرم کردیں ایوب خان کا آئین 1962ء معطل کر دیا اور سیاسی جماعتوں کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان کو ایک پارلیمانی جمہوری ریاست بنائیں گے مگر جب اخبارات میں جنرل یحییٰ خان کی شراب اور خواتین سے بھر پور رنگین زندگی میں مصروف ہوئے تب یحییٰ خان بھی وہ اقدامات اٹھانے میں مصروف ہوگئے جو کہ کبھی ناممکن لگتا تھا انہوں نے ون یونٹ کا خاتمہ کیا اور ملک میں پہلی بار حق رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کروانے کا اعلان کیا اور ملکی معیشت کو بہتر کرنے اور ملکی سیاست کو سازگار بنانے کے لئے آگے بڑھتے گئے یحییٰ خان کے دور میں ہونے والے انتخابات کو پاکستان کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا جاتا ہے مگر پھر بھی اس کے نتائج مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان تعصب اور تناؤ کو کھول کر سامنے لے آئے تھے مجیب کے بنگالی قوم پر ست جذبات میں بتدریج شدت آرہی تھی اور بھٹو نے اسے اپنے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا یحییٰ خان نے بھی بھٹو کے بیانیے کی طرفداری کی اور مشرقی پاکستان کو جھپٹ لیا اس سے ایک خونخوار جنگ بھڑک اٹھی اور بعد میں بھارت کے خلاف جنگ چھڑگئی 1971ء کے واقعے کے بعد تبدیل ہوگئے تھے اور ایک پہچان زدہ قوم ایک قربانی کے بکرے کی تلاش میں بھی یحییٰ خان کو جب ان کے اپنے لوگوں نے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تب قربانی کا بکرا وہ ہی بن گئے اُن کی بے دخلی کے بعد انہوں نے مکمل طور پر خاموش اختیار کر لی اور خاموشی کا دامن پھر کبھی نہ چھوڑا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں