327

تضادات سے بھرپور نظام ہائے تعلیم

ہو میرے دم سے یوں میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
ثاقب شبیر شانی/تعلیمی اداروں میں پروان چڑھنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کن اقدار پر کی جا رہی ہے؟ ملک میں رائج طبقاتی نظام کے باعث اس حوالے سے حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔ وطن عزیز میں مختلف طرز کے نظام ہائے تعلیم کے ذریعے ہماری نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے نتیجتاسوال اٹھنا لازم ہے کہ اسقدر مختلف نظام ہائے تعلیم کے ذریعے کیسے یکسو یکجاءیک خیال اعلی صلاحیتوں اقدار اور تعلیم و تربیت کی حامل ایک قوم پروان چڑھ سکتی ہے؟ سرکاری نجی اردو انگلش میڈیم درسگاہوں دینی مدارس میں پڑھایا جانے والانصاب ہماری نسلوں کو دینی دنیاوی تقا ضوں کے مطابق متوازن تعلیم فراہم کر رہا ہے؟ تعلیم و تربیت بنیادی طور ریاست کی ذمہ داری ہے ریاستی نظامت کے تحت چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کے مقابل وسائل مہیا کرنا نجی طبقہ کے بس کی بات نہیں مگر ریاستی نظام تعلیم کے نقائص کا بھرپور فائدہ نجی/کاروباری طبقہ کو پہنچتا ہے۔ گرچہ سرکاری نصاب اور نظام تعلیم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھل رہا ہے مگر مزید بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ اکثریت میں نجی تعلیمی اداروں کے پاس نہ سرکاری طرز کی عمارت ہوتی ہے اساتذہ نہ مالی آسودگی باجود اس کے نجی طبقہ بڑھوتری کی جانب گامزن ہے اسکی وجہ انکی آزادانہ پالیسی ہے ایسے ادارے ہر علاقے میں طلب کے مطابق کسی بھی طرز کے نصاب کو اپنا سکتے ہیں ہیں یا اپنا ایک نیانصاب ترتیب دے سکتے ہیں ، ضرورت کے مطابق آکسفورڈ ہاورڈ سے جامعہ اور حفظ وتجوید تک کے نام اور نصاب بروئے کار لا سکتے ہیں اپنی ضرورت کے مطابق اساتذہ کاانتخاب، اساتذہ کی اہلیت کے مطابق انکی تنخواہ اور والدین کی حیثیت کے مطابق طلباءو طالبات کی فیس مقرر کر سکتے ہیں اپنائے جانے والے طرز تعلیم کے مطابق اخلاقیات کا تعین کر سکتے ہیں اگر طرز تعلیم مغربی ہے تو مخلوط نظام کے تحت اردو اسلامیات کے علاوہ تمام مضامین آکسفورڈ سلیبس پر مبنی ہوں گے اور انگریزی میں پڑھائے جائیں گے شیکسپئیر کے ناول رومیو جولیٹ پر سٹیج پرفارمنس کو کلاسیکی اور اخلاقی گردانہ جائے گا نت نئے دن منائے جائیں گے و غیرہ وغیرہ اگر نیم مغربی طرز تعلیم کی حامل درسگاہ ہو تو نظام غیر مخلوط نصاب ملاءجلا تقاریب ادبی ہوں گی جن میں قومی و ملی نغموں سے قبل انڈین فلمی گانوں کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں تو مذکورہ طرز کی گجائش پیدا کرنے پر پیڈا ایکٹ کے تحت انضباطی کاروآئی عمل میں لائی جاتی ہے اور مدارس کے مکمل دینی اقدار پر مبنی نظام تعلیم میں تو ان خطوط پر تصور کرنا بھی قابل گرفت جرم ہوتا ہے، ایک دوسرے سے زمین و آسمان جیسا تضاد رکھنے والے نظام ہائے تعلیم بنیاد اور اقدار کے تحت کیونکر ایک نقطہءنظر وفکر رکھنے والے قوم کھڑی جا سکتی ہے ، ایسا سوچنا بلکل ایسے ہی کہ آپ اپنے ایک بچے کو مغربی طرز کے ایلیٹ کلاس سکول ایک کو اردو میڈیم ایک کو سرکاری اور ایک کو مدرسے میں سے تعلیم دلوا کر انہیں گھر کے تمام فیصلے اتفاق رائے سے کرنے کی فرمائش کریں ایسا نہیں ہو گا آزاد خیال ذہن بنیاد پرست کے نظریات قبول کرے گا نہ بنیاد پرست غیر جانب دار کو ایماندار تسلیم کرے گا گرچہ تمام ہی اپنی تعلیمات کے مطابق درست رائے دیں گے مگر ایک دوسرے کے نظریات اورخیالات کو قبول نہیں کر پائیں گے کیونکہ ان کی فکرونظر میں زمین و آسمان کا تضاد ہو گا اور اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے جو انہیں مساوی حقوق اور یکساں مواقع فراہم نہیں کر پایا جب تک طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کر کے ایک ریاستی سرکاری مساوی مربوط مضبوط فعال نظام تعلیم رائج نہیں کیا جاتا، بنیادی تعلیم سے اعلی تعلیم حاصل کر لینے تک بھی یکسو یکجاءاقدار اور فکر و نظر کی حامل قوم پروان نہیں چڑھ سکتی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں