312

اُستاد فقیر مرزا شیر زمان کیانیؒ

واجد اقبال جنجوعہ

پاکستان اور آزاد کشمیر کا سرحدی علاقہ دریائے جہلم کا مغربی حصہ، اونچے نیچے ٹیلوں کی ناہموار زمین سابقہ تحصیل کہوٹہ اور موجودہ تحصیل کلرسیداں کا دور دراز گاؤں سکرانہ جہاں پوٹھوہاری ادب کے استاد شاعر فقیر شاعر مرزا شیر زمان کیانی 22 جون 1924ء میں نائب صوبیدار صوبہ خان گکھڑ کے گھر تولد ہوئے خاندانی پس منظر کچھ یوں ہے کہ آپ ؒ گکھڑ ادمال ہیں پانچ بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے بڑے تھے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول سکرانہ سے جبکہ گورنمنٹ مڈل سکول چوآخالصہ سے مڈل پاس کیا اس کے بعد حصولِ تعلیم کے لیے گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں داخل ہوئے جہاں سے 1942ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اسی سال شادی ہوئی جس سے تین بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئے جن میں بابو مرزا یاسر کیانی (صدارتی تمغہ ء امتیاز) پوٹھوہار کے معروف شاعر نقاد ماہرِ لسانیات اور ادیب ہیں (جن کے حوالہ سے مکمل کالم آئندہ پیش کیا جائے گا انشاء اللہ) اوائل میں دینی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرس قاضی صاحب سے حاصل کی جبکہ روحانی تعلیم اپنے نانا راجہ جہانداد خان (خلعت یافتہ پیران پیر بغداد شریف) سے حاصل کی شاعری کا آغاز تقریباً 1940 ء میں کیا استاد کے سوال پر آپ ؒکے فرزند بابو مرزا یاسر کیانی نے بتایا کہ آپ مادر زاد شاعر تھے کسی سے باقاعدہ اصلاح نہیں لی اوائل میں مختلف تخلص کرتے رہے لیکن مرزا اور فقیر مرزا (آپ ؒسے پہلے کسی نے تخلص میں فقیر مستعمل نہیں کیا تھا) کرتے تھے آپ پاکستان بننے سے پہلے برٹش آرمی میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوئے لیکن کسی معقول وجہ کے وہ نوکری چھوڑ دی دوسری بار امتحان پاس کرکے بھرتی ہوئے اور دوران نوکری 1959ء میں آرمی کورس کے لیے امریکہ گئے جہاں چوبیس ممالک کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی آپؒ آرڈیننس کور سے بطورِ صوبیدار 1974 ء کو ریٹائر ہوئے جس کے بعد مسلسل اٹھائیس سال سکرانہ کے جنگلات میں ذکر الٰہی اور مشاہدہ و مجاہدہ میں مشغول رہے گرمی، سردی، رمضان،عید جو بھی ہو آپ اپنی جنگل کی جھونپڑی میں پائے جاتے اسی دوران تقریباً 1988ء میں بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر ؒ آپ ؒ کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے لیے گئے جہاں انہوں نے آپکے اشعار سماعت فرمانے کے بعد کمال محبت و شفقت سے فرمایا کہ آپ کی رہنمائی موجودہ وقت میں صرف ایک شخص کرسکتا ہے جس کا نام ہے اللہ دتہ جوگی جہلمیؒ چند جملے تحریر کیے اور بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر ؒ کو پتہ لکھ کر دیا اور جہلم بھیج دیا آپ کا کلام بیشمار بیت بازوں /شعر خوانوں نے گایا لیکن راجہ یعقوب،راجہ ابراہیم اسیر، راجہ رزاق مرحوم اور راجہ عابد آف مانکراہ نے کمال محبت و عقیدت سے پیش کیا ہے شعراء پوٹھوہار میں آپ ؒکے دوستوں میں سائیں غلام نبی اختر‘ پھلگراں اسلام آباد مرزا عبدالکریم ہمسر راولپنڈی سائیں صادق صدیق‘ کلیاہ اسلام آباد جنابِ سوختہ موہڑہ بنی کلرسیداں صوفی سید اکبر آف نڑالہ اور محسنِ پوٹھوہار ماسٹر محمد دلپذیر شاد ؒ شامل تھے جبکہ تلامذہ میں بلبل پوٹھوہار سائیں گل فیاض کیانی ؒ لیاقت حسین کامل، عبدالخالق قلی ؒ،محمد اشرف طالب، گلستان خان فرشی، حاجی طارق نوید، ضیارب تائب اور محمد شہزاد اداس شامل ہیں آپ ؒکو مریڑ حسن راولپنڈی مشاعرہ میں صدر مشاعرہ سید نذر حسین مضطر: اور مرزا عبدالکریم ہمسر ؒنے چار مختلف طرحی مصرعوں پر اشعار کہنے پر ”استاد شاعر” کے لقب سے نوازاآپ کی وفات یکم اکتوبر 2002 ء کو ہوئی اور 2 اکتوبر کو آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا آپ کی وفات کے تقریباً ایک سال بعد 2003ء میں بابو مرزا یاسر کیانی نے آپ کی تصنیف ”عشق رمزاں ” شائع کرائی جس کے اعلیٰ معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے علاقائی زبانوں کے ایم فل کے نصاب میں شامل کیا آپ اعلیٰ نسب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ (اپنے وقت کے) ہونے کے ساتھ اعلیٰ پائے کے شاعر ادیب استاد مفکر مدبر اور فقیر تھے آپ کی اوائل جوانی انتہائی خوشحالی میں گزری لیکن اواخر حیات میں آپ نے فقر و غنا اور درویشی اختیار کر کے مشاہدہ و مجاہدہ میں مشغول ہو کر ایک اعلیٰ مقام پایا آپ ؒ کی فکری اثاث اور پوٹھوہاری ادب میں کارہائے نمایاں اور تعلیمات آنی والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں
نمونہ کلام
ہاں خاکی تے خاک وچ گم ہستی
روح خاک وچ خاطر فیکون پھرناں
دتا نفی خمار نہ ہوش مینوں
باغی ہوش تھیں میرا مضمون پھرناں
اُچا فلسفہ منطق تصوراں تھیں
میرے فکر نوں لے کے جنون پھرناں
دیونڑ مرزے نے سخن صواد کیوں نہ
حرف حرف وچ جگر نا خون پھرناں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں