420

اونچی دوکان پھیکا پکوان

کہا جاتا ہے کہ پہاڑ دور سے ہی اچھے اور سہانے لگتے ہیں۔کوئی میرپور میں رہائش رکھے تو پتہ چلے کہ میرپور کا صرف نام ہی منی لندن بھلا سہانا معلوم ہوتا ہے۔لیکن حقیقت میں یہ امراء کیلئے جنت اور سفید پوش غرباء اور چھوٹے ملازمین کے لیے جہنم سے کم نہیں ہے۔بڑی بڑی عالی شان کوٹھیاں اور پلازوں کے نظارے تو بہت دلکش نظر آتے ہیں لیکن اس کے پیچھے چھپے ہوئے سفید پوش غرباء دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس کی بڑی وجہ مہنگائی ہے۔ مہنگائی تو پورے خطے میں ہے۔لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ میرپور میں خاص قسم کی مہنگائی ہوتی ہے یہاں ایسی مہنگائی ہوتی جو پھر واپسی کا نام ہی نہیں لیتی۔ حالیہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً ستر سے اسی روپے کمی آئی ہے لیکن مجال ہے یہاں اشیاء کی قیمتیں دکانداروں نے کم کی ہوں۔دکانداروں کو بھی پتہ ہے یہاں لوگ امیر ہیں اشیاء کے لیے کوئی بھاؤ تاؤ نہیں کرتے اس لیے ہر ایک نے اپنی مرضی سے ریٹ بنائے ہوئے ہیں۔یہاں پر آپ میرپور کیمشہور بیکرز نفیس کو ہی لے لیں جس کی بھوک کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔سب سے پہلے بیکری آئٹم اور مٹھائی کے ریٹ سب سے زیادہ یہ لوگ کرتے ہیں۔ایک دو سال پہلے بسکٹ کیک پیس وغیرہ کے ریٹ آٹھ سو روپے سے کم فی کلو تھے لیکن یہ اب ریٹ پندرہ سو روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر گئے ہیں اسی طرح باقی آئٹم کے ریٹ بھی آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں

۔ان کے مالک مرحوم حاجی محمد سلیم صاحب بہت ہی درد دل رکھنے والی شخصیت تھے ان کو فلاحی کاموں میں بہت دلچسپی تھی۔ انھوں نے غرباء اور مسکینوں کے لیے بہت کچھ کیا۔لیکن موجودہ نفیس کی قیادت غرباء ومساکین کو کھا رہی ہے جو ایک شرمندگی کا باعث ہے۔یہاں پر نفیس کا ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا کیونکہ میرپور میں موجود باقی تمام بیکریز والوں کے لیے ریٹ لسٹ میں یہ مثال بنائی جاتی ہے کہ نفیس والوں کے ریٹ یہ یہ ہیں اسلئے ہم بھی یہ یہ ریٹ لگائیں گے۔پھر اس طرح مائنڈ سیٹ بنا کر سفید پوش لوگوں کو لوٹا جاتا ہے۔راقم کا تعلق اسی علاقہ سے ہے پھر راقم کی نظر پنجاب کے مختلف اضلاع پر بھی موجود ہے وہاں اور یہاں بنیادی ضروریات کی اشیاء کی قیمتوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔اسی طرح پرانی چونگی نمبر چار اور پھر نیو سٹی گیٹ کا بازار انتہائی مہنگا ہے کوئی چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں ہے۔کھڑی شریف اور جاتلاں کے ریٹ میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ پنجاب سے آئے ہوئے دکاندار بھائیوں نے میرپور کو حقیقت میں یورپ مان رکھا ہے ریٹ لسٹ پاؤنڈ اور ڈالروں میں سیٹ کرکے رکھے ہوئے ہیں۔جن کے پاس ڈالر اور پاؤنڈ موجود ہیں وہ تو خریدار بن سکتے ہیں لیکن چھوٹے سفید پوش فکس ماہانہ تنخواہ والے ملازم اور مزدور اس کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔شائد دنیا میں میرپور واحد ایسا شہر جس میں ایک بار مہنگی کی ہوئی چیز واپس سستی نہیں ہوسکتی اگر عالمی مارکیٹ میں سستی بھی ہو جائے تو یہاں ناممکن ہے۔اسلئے یہاں پر سفید پوش آدمی کے لیے نارمل سا ماہانہ بجٹ بنانا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ یہاں پر ہر گھنٹے کے حساب سے ریٹ میں ردوبدل ہوتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں