تحریر:ساجد محمود
گزشتہ ہفتے 4ستمبر کو پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی قیادت کی اعلیٰ سطحی مشاورت ہوئی تھی بظاہر دونوں جماعتیں صوبہ پنجاب میں متوازن بلدیاتی نظام لانے پر متفق نظر آتی ہیں ویڈیو لنک پر ہونے والے اس اجلاس میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کے درمیان میئر کا انتخاب براہ راست کرانے پر بھی اتفاق رائے پایا گیا جبکہ اجلاس میں ضلع ناظم کا سیٹ اپ لانے پر بھی مشاورت کی گئی تحصیل اور ضلع کی سطح پر اختیارات کی تقسیم کی مختلف تجاویز کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیااجلاس میں طے شدہ تجاویز کی حتمی منظوری رواں ہفتے وزیراعظم عمران خان سے لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم ان تمام تجاویز پر عمل درآمد کا انحصار وزیر اعظم کی جانب سے ان کی منظوری پر ہے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کے تناظر میں یوسی بشندوٹ میں مسلم لیگ ن دوبارہ خاصی متحرک ہوگئی ہے اور اس حوالے سے پچھلے ہفتے ایک تقریب کے دوران جس میں سابق ایم پی اے راجہ قمرالاسلام نے بھی شرکت کی تھی یوسی چیئرمین راجہ زبیر کیانی اور مسلم لیگی رہنما اور یوسی بشندوٹ کے صدر چوہدری محمد حنیف کی کاوشوں سے نندنہ جٹال سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ق کے سینئر رہنما اور تحصیل کلرسیداں کے سابق صدر راجہ محمد اخلاق نے برادری سمیت مسلم لیگ ن میں باضابطہ شمولیت اختیار کرلی ہے جس سے تحریک انصاف کی صفوں میں پارٹی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے خاصی تشویش اور مقامی سیاست میں کافی ہلچل پیدا ہوگئی ہے تاہم اس پیش رفت کے ردعمل میں فوری طور پر ایم پی اے چوہدری ساجد محمود مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے نندنہ جٹال کے رہائشی اور سابق یوسی نائب چیئرمین راجہ مناظر اقبال جنجوعہ کی رہائشگاہ پر تشریف لا کر سیاسی مخالفین اور تحریک انصاف کے حامیوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ راجہ مناظر اقبال عنقریب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے جارہے ہیں یادرہے راجہ مناظر اقبال جنجوعہ ماضی میں مسلم لیگ ن کے نظریاتی کارکنان میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور بطور یوسی نائب چیئرمین علاقائی ترقی میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں اگر بالفرض وہ تحریک انصاف کا حصہ بنتے ہیں تو بلدیاتی انتخابات کے موقع پر انکے سیاسی کردار کے حوالے سے انکے موقف اور مطالبات کو تسلیم کرنا تحریک انصاف کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں تو ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے نووارد حامی امیدواروں کے مابین ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل میں باہمی کشمکش کے امکانات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا موجودہ دور میں عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اور غریب کا جینا دوبھر ہوگیا ہے جبکہ کارگردگی کے لحاظ سے عوام میں حکومت کی مقبولیت اور سیاسی ساکھ کا گراف بتدریج زوال کا شکار ہے تو ان متخنجر حالات میں زمینی حقائق اور مستقبل کے سیاسی منظرنامے کو مدنظر رکھتے ہوئے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ راجہ مناظر اقبال تحریک انصاف کا حصہ بننے سے قبل اپنے فیصلے پر نظرثانی کے عمل کو ترجیح دیں گے جبکہ عوامی رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے یہ نتائج اخذ کرنے میں ہچکچاہٹ کا عنصر شامل نہیں کہ بہت سے ایسے سیاسی دھڑے مستقبل میں مسلم لیگ ن کیساتھ چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں جنہوں نے سابقہ عام انتخابات میں غیرارادی اور حادثاتی طور پر تحریک انصاف کی حمایت کی تھی کیونکہ فی الحال مقامی سطح پر عوامی فلاحی منصوبے ٹھپ پڑے ہیں اور دوسری طرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں آئے دن اضافے سے غریب عوام کا صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا ہے جبکہ عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کو ووٹ دینے پر خاصی پشیمان ہے ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان نے اس وقت تبدیلی کی بات کی تھی لیکن عوام اب سراپا احتجاج ہیں کہ روزگار کہاں ہے کیا بھوک اور غربت میں کمی واقع ہوئی ہے کیا مہنگائی پر کنٹرول ہوا ہے تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تحریک انصاف کے حامی ووٹرز جو تبدیلی سرکار کی حکومت کے مؤثر اقدامات کے نتیجے میں اپنے لیے روزمرہ زندگی میں کچھ بہتری کی امید لگائے بیٹھے تھے اب کافی حد تک ناامید ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ان پاکستانی باشندوں کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بار بار کہے جانے والے یہ الفاظ کافی حد تک تکلیف دہ ہیں کہ عوام کو ابھی مزید قربانیاں دینا ہوں گی اورگھبرانا نہیں ہے اب جب کہ ڈالر کی قدر بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کی نئی لہر کو جنم دیا ہے جسکے ردعمل میں موجودہ حکومت کی ناقص کارگردگی کے خلاف عوام میں مایوسی پھیلی ہے جسکا عملی مظاہرہ آمدہ بلدیاتی انتخابات کے موقعہ پر دیکھنے کو ملے گا تاہم شرط یہ ہے کہ تمام انتخابی طریقہ کار کا انعقاد غیرجانبدار اور شفافیت کے عمل سے گزرے۔