پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نہ کسی جرم کی سزا ہے اور نہ سزا کا خوف۔یہاں قانون کی گرفت اپنا اثر مکمل طور کھو چکی ہے کوئی کچھ بھی کرگذرے اسے کوئی روکنے والا نہیں
یہاں کرمنل مائنڈ افراد کسی ایک طبقے یا گروہ سے تعلق نہیں رکھتے سماج کے ہر طبقے اور ہر گروہ کے لوگ اپنی اپنی پسند اور اپنی بساط کے مطابق جرائم کا ارتکاب کرنے میں مصروف ہیں
اور کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں اب تو یہ عالم ہے کہ جب ہم کسی جرم کی مذمت کرتے ہیں اور ملزمان کو عبرت ناک سزا کا مطالبہ کرتے ہیں
تو خود پر ہنسی آتی ہے۔جبکہ جرائم کی بیچ کنی کے لیے بنے اداروں کے بااختیار لوگ بھی ہمارے ایسے مطالبات پر بتیسی نکالتے ہیں۔
جو کچھ ہورہا ہے وہ اچھا نہیں ہے ہمارے رہبر ہمارے منصف اور ہمارے چوکیدار سب جرائم کی بڑھواتی میں اہم کردار کرتے ہیں چوری چکار ی کرپشن۔اقرباء پروری قتل وغارت گری۔
غربت افلاس۔رشوت خوری۔بھتے تاوان جیسے جرائم ان کی ترجیحات میں ہی نہیں۔بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ کلاس بھی ان جرائم میں شامل ہے۔احساسات و ضروریات جب تک قابو میں رہتے ہیں انسان کے سوچنے سمجھنے کی
صلاحیت بھی قائم رہتی ہے مگر جب نفس بے قابو ہوتا ہے تو سمجھیں ایک اندھیری کھائی اسے اپنی آغوش میں لینے کے لیے تیار ہوتی ہے۔
مجرم چاہے جتنا بھی شاطر ہو کہیں ناں کہیں کوئی جھول چھوڑ ہی جاتا ہے۔جس سے وہ اپنی پہچان کرواتا ہے یہ اور بات ہے کہ مجرم اپنے کیے جرم کے واضع ثبوتوں کے ساتھ ہی کیوں نہ پکڑا جائے ہمارے نظام انصاف کی کمزوریاں اور رشوت اسے تحفظ دیتے ہیں۔
سو وہ باعزت بری ہوکر معاشرے کے معززین میں شامل رہتا ہے کچھ لوگ تو بھوک سے تنگ کر جرم کی راہ پر چلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن اکثریت دھن دولت اور اثر ورسوخ کے ہوتے ہوئے بھی ایسے کام کر جاتے ہیں۔
جو معاشرے میں ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں کچھ ایسی ہی ناپسندیدہ حرکت مبینہ طور پر تحصیل ہسپتال گوجر خان کے ایک مسیحا کی جانب سے کی گئی ڈاکٹری پیشے سے منسلک افراد اپنے اچھے برے اعمال کے باوجود معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں
لیکن تحصیل اسپتال کے ڈاکٹر دانش پر جو الزام لگا اور اس الزام کے نتیجے میں ان گرفتاری نے ان کی معاشرتی عزت اور معزز پن کی دھجیاں اڑا کردکھ دیں۔
کچھ وقت قبل تحصیل اسپتال سے ای سی جی مشین چوری ہونے کی ایک خبر نظروں سے گزری چونکہ چوری چکاری لوٹ مار اور نوسربازی کی وارداتیں اب ہمارے معاشرے کے لیے روزمرہ کا معمول بن چکیں اس لیے میں نے بھی سرسری طورپر اس خبر کو دیکھا سوچ یہ تھا
کہ اس وارادت کا ذمہ دار اسپتال کے اندر کا ہی بندہ ہوگا۔خیال تھا کہ شاید پیرا میڈیکل کا کوئی بندہ ہوسکتا ہے لیکن واردات کا ڈراپ سین تحصیل ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر دانش کی گرفتاری اور ان سے مال مسروقہ کی برآمدگی پر ہواکس قدر افسوسناک ڈراپ سین ہوا
کہ معاشرے کا ایک معزز فرد اس قدر گھناؤنے کردار میں سامنے آیا کہ لوگوں کو شاک لگا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ مسیحائی کے پیشے سے منسلک اور اچھی تنخواہ لینے والے کوئی بندہ اس قدر گھٹیا سوچ کا مالک بھی ہوسکتا ہے۔
لیکن ایسا ہوا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مال مسروقہ کی برآمدگی اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے واضع ثبوتوں کے ہوتے ہوئے استغاثہ ملزم کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوتا ہے
یا چمک اپنا کام دیکھا کر کیس کو کمزور بناتے ہوئے بچت کا راستہ فراہم کرتا ہے۔کیونکہ یہاں سب مایا ہے۔