اڑھائی ہفتے گزر گئے مگر انکوائری مکمل نہیں ہوئی، ذمہ داروں کا تعین نہ ہو سکا۔قارئین کرام! رات کی تاریکی میں بند کمروں میں بیٹھ کر کرپشن، اقرباء پروری کی مثال قائم کرتے ہوئے ریاستی اثاثے پہ نقب زنی کرنے میں ملوث کردار تاحال بے نقاب نہ ہو سکے اور اب تو عوام بھولتی جا رہی ہے کہ یہ سانحہ بھی یہاں ہو گزرا ہے۔لیکن جب تک دم میں دم ہے ہم تو سوال کریں گے اور یہ سوال الیکشن میں بھی تحریک انصاف کے رہنماوں کا پیچھا کرتا رہے گا کہ وہ کون تھا؟مارکیٹ کمیٹی گوجرخان کی اربوں روپے مالیتی سرکاری جگہ چپ چاپ لیز پر دے دی گئی اور حکومتی ایم پی اے سمیت تحریک انصاف کے رہنماؤں کو خبر تک نہ ہوئی؟ چیئرمین مارکیٹ کمیٹی نے ایم پی اے کے نوٹس میں لائے بغیر اربوں روپے کی پراپرٹی کیسے لیز پر دے دی؟ کس کس کو نوازنے کی کوشش میں ریاستی اثاثے پہ نقب زنی لگانے کی کوشش ہوئی؟مارکیٹ کمیٹی کے کرائے کے دفتر میں ایم پی اے اور تحریک انصاف کے رہنما ملاقاتیں، کارنر میٹنگز اور دعوتیں کرتے رہے تو کیا انکے علم میں نہیں تھا؟ مارکیٹ کمیٹی کا دفتر کئی سالوں سے کرائے کی بلڈنگز میں دھکے کھا رہا ہے تو اب تک مارکیٹ کمیٹی کی جگہ پر دفتر / دکانیں تعمیر کیوں نہیں کی گئیں؟ مارکیٹ کمیٹی کی سابقہ بلڈنگ کو گرا کر اس کے ملبے کو فروخت کیا گیا تو کیا اس ٹھیکے میں بھی کرپشن ہوئی؟ مارکیٹ کمیٹی کی اربوں روپے مالیت کی جگہ کی لیز ماہانہ 1 لاکھ 27 ہزار روپے پر دی گئی، تعمیرات شروع ہوئیں تو تاجروں نے شور کیا کہ اس کی نیلامی کس نے کی جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تو نام نہاد عوامی سابق ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر لاو لشکر کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور حسب روایت بیانات داغ دیئے کہ ملوث افراد کو سامنے لایا جائے گا اور موقع پہ جاری تعمیراتی کام رکوا دیا،
جبکہ دوبارہ اسی چیئرمین مارکیٹ کمیٹی نے اس لیز کو کینسل کیا جس نے یہ لیز چپکے چپکے اونے پونے داموں دے دی تھی ”یہ بھونڈا مذاق نہیں تو کیا ہے“ اس کے بعد اس معاملے کا ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے نوٹس لیا اور اسسٹنٹ کمشنر کو تمام تر معاملے کی انکوائری کر کے رپورٹ دینے کا حکم دیا لیکن تاحال اس جانب بھی خاموشی ہے اور دوسری طرف (سابق) ایم پی اے چوہدری جاویدکوثر و دیگر رہنما جو انصاف کے علمبردار بنے پھرتے ہیں ان کی جانب بھی مسلسل خاموشی چھائی ہوئی ہے تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں بھرپور کرپشن کا دور دورہ رہا اور چونکہ پی ٹی آئی اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو مجھے امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ اس معاملے کو دبا دیا جائے گا کیونکہ اس معاملے میں مبینہ طور پر تحریک ناانصاف کے اہم رہ نما ملوث ہیں اور انکو بے نقاب کر کے تحریک انصاف اپنا الیکشن و تعلقات خراب نہیں کر سکتی کیونکہ انہی کرپٹ کرداروں نے انکو سپورٹ کرنا ہے۔ اس وقوعہ کے فوری بعد سوشل میڈیا پہ راقم نے بہت اہم سوالات اٹھائے تھے جن میں سے دو سوال یہ ہیں: کیا ایم پی اے یا انکے اردگرد ہمہ وقت رہنے والوں نے بھی اس ڈاکہ ڈالنے کی کوشش میں حصہ لیا؟کیا ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کا آج موقع پہ آ کر بیان دینا محض بیان بازی اور سیاست نہیں ہے اور یہ سوالات جواب طلب تھے چونکہ اب تک جواب نہ ملے تو وہ بات سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ ایم پی اے کے اردگرد رہنے والے اس میں ملوث ہیں اور جاوید کوثر کا موقع پر آکر بیان دینا اور شعبدہ بازی کرنا صرف مکروہ سیاست نکلا کیونکہ ایک دو روزہ انکوائری میں سب سامنے آ سکتا تھا مگر اب تو اڑھائی ہفتے گزر چکے ہیں اور مکمل خاموشی ہے۔ایس ایچ او اور اسسٹنٹ کمشنر کے تبادلے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانیوالے سابق ایم پی اے خود تو کرپشن نہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر انکے ہمہ وقت ساتھی کرپشن کی دلدل میں گھٹنوں نہیں بلکہ گردن تک دھنسے ہوئے ہیں اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ چوری کرنے میں تعاون کرنیوالا، چوری ہوتی دیکھ کر اس پہ خاموش رہنے والا بھی برابر قصوروار ہوتا ہے۔بلدیہ آفس کو تحصیلی سیکرٹریٹ اور سرکاری مشینری کو تحریک انصاف کے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنیوالوں کو تو عوام الیکشن میں ضرور جواب دے گی مگر اب سرکاری اثاثے پہ نقب زنی کرنیوالوں، ان کے حمایتیوں کا بھی عوام پیچھا کرے گی اور الیکشن میں جب تقریریں ہوں گی تو کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی باضمیر سوال کرے گا کہ وہ کون تھا؟ پھر وہاں جواب دینا پڑے گا۔ برکت حسین شاد کے اشعار بہترین اختتامی کلمات ہیں:
یعنی اک حمام تھا سب کردار ننگے تھے!
ابا میاں ننگے تھے برخوردار ننگے تھے!
صاحب بد عنوانی میں شاہکار ننگے تھے
اک تو ننگا ہوتا ہے یہ بے شمار ننگے تھے!