گوجرخان فلائی اوور منصوبہ بُغض افتخار وارثی کی نذر 155

گوجرخان فلائی اوور منصوبہ بُغض افتخار وارثی کی نذر

سیاست کو عبادت اور خدمت کا نام دینے والے ہمارے سیاسی اکابرین مقامی سطح کے ہوں یا مرکزی سطح کے قول وفعل کے تضادات کا مجموعہ ہوتے ہیں ان کی سوچ ذاتی مفاد سے شروع ہوتی ہے اور ذاتی مفاد پر ختم ہوجاتی ہے یہ لوگ نہ اپنے حلقہ کے عوام سے مخلص ہوتے ہیں نہ ہی اپنی جماعت سے سچے،سیاست نے کیا کیا فقظ زندگی کے خلاف سازشیں کیں جس کا ثمریہ کہ زندگیاں حرام ہوکر رہ گئیں ہمارے رہنما اور مدبر بے تدبیری میں طاق ومشتاق ہیں یہ غریبوں‘سادہ لوحوں اور مظلوموں کو اپنے مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں کیے رکھتے ہیں یہ لسانی‘ مذہبی اور برادری ازم کا تفرقہ پیدا کرتے ہیں کیونکہ یہی ان کی تدبیر اور یہی ان کی سیاسی حکمت عملی رہی ہے یہ ایک درناک حقیقت ہے کہ ملک میں جتنی نفرتیں پھیلائیں گئیں مسائل کو جس قدر بڑھاوا دیا گیا وہ انہیں خود ساختہ خدمت گذاروں کا کارنامہ ہے قلمار طبقے جن کا کام بند ذہنوں پر دستک دینا ہوتا ہے وہ بھی معاشی مفادات کے تحت الہ کار بنتے رہے جبکہ سیاسی اکابرین کی جانب سے کریڈیٹ لینے اور کریڈیٹ چھینے کے تناظر میں مسائل ہر گذرتے دن سنگین تر ہورہے ہیں گوجر خان جی روڑ پر روزا نہ کی بنیاد پر ہونے والے جان لیوا حادثات بھی ان سیاست دانوں کی سازشوں کی وجہ قرار دئیے جاسکتے ہیں۔جی ٹی روڑ پر گلیانہ موڑ کے علاوہ مزید تین یو ٹرن موجود ہیں جو غیر محفوظ ہونے کے باعث انتہائی خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔خصوصاً گلیانہ موڑ جہاں حادثات کا ریشو کافی زیادہ ہے گذشتہ دنوں اسی موڑ پر ہونے والے ایک المناک حادثے میں دو موٹر سائیکل سوار نوجوان دوست اس وقت زندگیاں گنوا بیٹھے جب ایک دس ویلر ٹرالے نے انہیں کچل ڈالایہ ارباب اختیار اور ارباب اقتدار دونوں کے لیے شرم کا مقام ہے۔گذشتہ ادوار میں منتخب ایم پی اے چوہدری افتخار وارثی کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ سے اس مقام پر فلاحی اوور کا منصوبہ منظور کروایا جس کی تعمیر سے ٹریفک حادثات کے حوالے سے انسانی زندگیوں کو قدرے محفوظ کیا جاسکتا تھالیگی دور میں سابق ایم پی اے افتخار وارثی کے منظور کروائے جانے والے اس فلائی اوور پروجیکٹ کی منظوری کے بعد حکومت پنجاب کی جانب سے ایک کنسلٹ فرم کو فیس ادائیگی کے تحت سروے اور نقشہ کی تیاری کا کام سونپا گیا۔فرم کی جانب سے اس وقت کے ایم پی اے افتخار وارثی کی مشاورت سے گلیانہ موڑ سے سرور شہید کالج تک بننے والے اس منصوبے کا سروے مکمل کرتے ہوئے سروے رپورٹ اور پروجیکٹ کا نقشہ صوبائی حکومت کو پیش کردیا گیاجس کے فنڈز بھی مختص کردیے گئے افتخار وارثی کی جانب سے منصوبہ کی منظوری اور فنڈز کے اجراء سروے اور نقشے کی تیاری کی اطلاعات پر سیاسی مخالف جماعت پی ٹی آئی کے اکابرین کی جانب سے تو منصوبے کے خلاف میڈیا پر بیانات جاری ہوئے سو ہوئے مسلم لیگ میں افتخار وارثی کے مخالفین نے بھی اپنے گروپ کے کارندوں و مقامی رہنماوں کو منصوبے کی مخالفت میں پروپیگنڈہ مہم شروع کرنے کا ٹاسک دیا یہ سوچے بنا کہ یہ پروجیکٹ افتخار وارثی کی ذات کے لیے نہیں ہے یہ انسانی زندگیوں کو محفوظ بنانے کا پروجیکٹ ہے ان تمام عناصر کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر اس منصوبے کے حوالے سے مخالفانہ اور پروجیکٹ کو رقم کاضیا ع قرار دینے کے بیانات جاری کیے جاتے رہے۔ان عناصر کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہونے جو اس پروجیکٹ کی جگہ بائی پاس منصوبہ چاہتے تھے تاکہ بائی پاس بننے کی صورت میں ان کی زمینیں اہمیت اختیار کرسکیں۔ایک منظم مخالفانہ مہم کے بعد حکومت پنجاب کی جانب سے بائی پاس کے لیے بھی سروے کروایا گیا جس کی لاگت فلائی اوور سے کئی گنا زیادہ تھی۔جس پر بائی پاس کا مطالبہ ناقابل عمل قرار پایا۔لیکن اس سارے مہم کی وجہ سے فلائی اوور پر کام شروع نہ ہوسکا وقت کبھی رکتا نہیں وقت گذرتا رہا اور اس دوران دھرنے احتجاج اور سازشوں کا دور شروع ہوا اور یہ منصوبہ بغض افتخار وارثی کی نذر ہوگیا۔تاہم یہ پروجیکٹ آج بھی زندہ پروجیکٹ ہے اس لیے کہ یہ منظوری کے تمام مراحل طے کرچکا ہے موجودہ ایم پی اے موجودہ پنجاب حکومت کسی نئے ورک کے بغیر اس منصوبے پر کام شروع کرسکتی ہے۔فلائی اوور منصوبے کے سروے اور نقشے کی منظوری اور فنڈز مختص ہونے کے باوجود جو جو شخص اس منصوبے کے خلاف سازش کا حصہ رہا وہ آج جی ٹی روڑ پر ہونے والے حادثات کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔افتخار وارثی سے نفرت اور اختلاف کے باعث اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے روزانہ کی بنیاد پرہونے والے حادثات میں ضائع ہونے والی قیمتی جانوں کے تناظر میں تنہائی میں بیٹھ کر اپنے کردار پر غور ضرور فرمائیں کہ ان کی سازش کے تحت منصوبہ پایا تکمیل تک تو نہ پہنچ سکا لیکن اس کا افتخار وارثی کی ذات کوکیا نقصان ہوا نقصان تو ان لوگوں کا ہوا جو روزانہ جی ٹی روڑ پر اپنے پیاروں کی نعشیں اُٹھاتے ہیں۔انسان کی حرص اس کا مزاج اور دوسروں کو ایذا پہنچانا اب ہمارے معاشرے کا دستور بن چکا ہم اب بھی ہار اور جیت کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں کائنات کی خوبصورتی کو اپنے گھناؤنے اعمال وفعل سے بدصورتی میں بدلنے میں مصروف ہیں۔،یاد رکھیں دنیا میں نہ جانے کتنی بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج دوائیوں سے ممکن نہیں۔ان میں ایک بیماری بغض اور حسد کی بیماری ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں