گوجرخان ضلع کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا 136

گوجرخان ضلع کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا

جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

شیکسپئر کا قول ایک ضرب المثال کی حیثیت رکھتا ہے کہ زندگی ایک اسٹیج ہے جس پر ہم سب اداکار ہیں جو اپنے اپنے وقت میں اپنا اپنا کھیل دیکھا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔

یہی ادکار زندگی کے آغاز سے انجام تک ایک جواء کھیلتاہے جس میں خطرات اورحادثات کی بازی پہلی سانس کے ساتھ لگتی ہے اور آخری سانس تک جاری رہتی ہے تخلیق کے نقائص ہوں یا بیماریاں وہ ہر نومولود کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں

مگر زندگی مقابلہ کرتی ہے اور یہ کھیل انسانی تدبیر اور توشتہ دیوار کے ساتھ زندگی کے تمام اہم اور غیراہم فصیلوں میں جاری رہتا ہے خوشی‘ غم نفع و نقصان‘دوستی دشمنی محبت نفرت سب ہار جیت کے وہ روپ ہیں جن کا ہر انسان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے یہاں کے سیاسی نظام پر بات کریں تو اس میں ہر سو نفرت ہی نفرت دکھائی پڑتی ہے جس قوم نے صرف مسلمان بن کر قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی قیادت میں انگریز سامراج اور مکار بنیے کے گٹھ جوڑ کے خلاف ایک طویل جدوجہد کرتے ہوئے الگ ملک حاصل کیا

آج اسی قوم کو ہمارے سیاسی اکابرین‘سیاسی ملاؤں اور طاقت ور قوتوں نے اپنے مفادات کے لیے فرقوں میں بانٹ دیا۔قوم کو سندھی‘ پنجابی‘ پختون‘ بلوچ‘مہاجر بنا دیا دیا گیا

حتی کہ اس سے نیچے آکر ہمیں برادریوں میں تقسیم کرکے ہماری اس طاقت کو ختم کردیا گیا جس طاقت نے انگریز سامراج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا۔

جس نے پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان کو گھر جانے پر مجبور کیا تھا آج انہیں تقسیم کر کے کمزور کردیا گیا۔آج ہم سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنائے بیٹھے ہیں

اور ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ کر یہ لوگ ملکی وسائل کو ملکر لوٹ رہے ہیں اور کام اور کارکردگی صفر۔گوجر خان کی سیاسی تاریخ کی بات کریں تو 1985 کے غیرجماعتی الیکشن سے 2024تک حلقہ پی پی 8 میں سب زیادہ مسلم لیگ کے امیدوار کامیاب ہوئے کہتے ہیں

کچھ کر گزرنے کے لیے صدیاں درکار نہیں ہوتیں بلکہ کچھ کر گزرنے کے لیے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔1985 کے غیرجماعتی الیکشن میں چوہدری ریاض کامیاب ہوئے

جو بعد ازاں اسمبلی کے اندر بننے والی مسلم لیگ میں شامل ہوئے جو بعد کو مسلم لیگ ن کہلائی۔اس کے بعد 1988 پھر 1990 پھر 1993 اور 1997 کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ اس حلقہ سے کامیاب ہوئی۔2002 اور 2008 کے الیکشن میں زیر عتاب ہونے کی

وجہ سے مسلم اس نشست پر ناکامی سے دوچار ہوئی۔2013 کے الیکشن میں ایک بار پھر مسلم لیگ نے اس نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ 2018 اور 2024 کے الیکشنز میں اس حلقہ سے پی ٹی آئی کامیاب ہوئی۔تاہم کامیاب ممبران کے لیے حلقے کے مسائل کبھی ترجیح نہیں رہے۔

سب سے زیادہ عرصہ مسلم لیگ حلقہ کی نمائندگی کرتی رہی۔ 1985میں مسلم لیگ وفاق اور پنجاب میں برسراقتدار رہی۔1988 میں مسلم لیگ نواز شریف کی وزارت اعلی میں پنجاب کی حکمران رہی

۔ 1990 میں بھی مسلم لیگ پنجاب اور وفاق میں حکمران رہی۔ 1993 میں بھی مسلم لیگ پنجاب میں برسراقتدار رہی 1997 میں بھی
مسلم لیگ وفاق اور پنجاب میں برسراقتدار رہی۔پھر 2008 میں مسلم لیگ پنجاب میں حکمران رہی۔پھر 2103 میں مسلم لیگ وفاق اور پنجاب میں حکمرانی کرتی رہی

۔ان ادوار میں مسلم لیگ نے حلقہ پی پی آٹھ کو کیا دیا؟؟ گو کہ پی ٹی آئی پونے چار کی کم مدت تک وفاق اور پنجاب میں حکومت میں رہی لیکن اس دور میں بھی حلقہ کو کوئی میگا پروجیکٹ نہ مل۔

سکا دونوں جماعتوں کے کامیاب ہونے رہنماء گوجر خان کو ضلع نہ بنوا سکے۔نہ ہی کبھی اس پر اسمبلی فلور پر بات کی گئی۔ گوجر خان کے بعد حلقہ میں بیول اہم قصبہ ہے لیکن یہاں کے لیے کسی دور میں کوئی پروجیکٹ نہیں لایا جاسکا

۔ہمارے بچوں کو گراؤنڈ میسر نہیں۔ سر کا ری اسکولز کی عمارتیں تباہ حال ہیں فنڈز کی کمی کے باعث اسکول انتظامیہ بچوں سے مختلف مد میں چندہ وصولی کرکے معاملات چلاتی ہے۔

یونین کونسل کے لیے فنڈز نہیں لیے جاسکے صفائی کا عملہ نہ ہونے کے برابر ہے بی ایچ یو میں ایک طویل عرصہ تک ڈاکٹر مہیا نہیں کیا جاسکا اس وقت بھی اسٹاف ڈیوٹی پر نظر نہیں آتا۔

تجاوزات کی بھرمار نے پیدل چلنا بھی دشوار بنا دیا ہے اس وقت بھی مسلم لیگ پنجاب اور مرکز پر حکمران ہے اور یہاں کے مقامی مسلم لیگی آج بھی صرف نمائشی کردار ہی ادا کررہے ہیں

نعرے وعدے اور خواب ہوگا۔کریں گے۔پلان بن چکا جیسے دلفریب باتیں۔ کا ر کر دگی صفر۔ جو صاحب اس وقت جیتے ہیں ان کے پاس حکومت نہ ہونے کا بہانہ موجود ہے۔ سو حلقہ کے لوگ بس ان سیاست دانوں کی تقاریر انجوائے کریں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں