
سیاست بڑا ہی بے رحم کھیل ہے۔ ماضی کے دشمن حال کے دوست اور کل دوست آج دشمن ہو جاتے ہیں۔قومی سیاست کے اثرات لازمی طور پر مقامی سطح پر بھی منتقل ہوتے ہیں۔ وہ سیاسی کارکنان جو کل تک مخالف دھڑے کے قائدین کو بُرا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں وہ اپنے قائدین کے یو ٹرن پر ہکے بکے رہ جاتے ہیں انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ نئی صورت حال میں انہیں کیا کرنا ہے۔جب پی ڈی ایم بنی تو زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے والے اس کے اشاروں پر چلنے لگے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور کامیاب بھی ہو گئی۔اصل کھیل تب شروع ہوا جب پی ڈی ایم نے حکومت بنائی۔ زرداری کی پیپلز پارٹی نے وزارت خارجہ اور سپیکر شپ ہتھیا لی اور عوام کو جوابدہ وزارتیں: خزانہ، داخلہ وغیرہ مسلم لیگ ن کے حصے میں آئیں۔ مہنگائی کا ایک ایٹم بم تھا جو عوام پر گرایا گیا۔ عوام حیران و پریشان تھی کہ یہ کیسی حکومت آئی ہے اس کے ذمہ داران جب اپوزیشن میں تھے تو مہنگائی مارچ کرتے تھے اور جب خوب حکمران بنے ہیں تو عوام کی چمڑی اتارنے پر اتر آئے ہیں، پر کب وہی پرانا گھسا پٹا موقف کہ خزانہ خالی اور مہنگائی پچھلی حکومت کی وجہ سے ہورہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان جو عوام میں مقبولیت کے انتہائی نچلے درجے سے بھی نیچے جاچکا تھا اور ہونے والے ہر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑرہا تھا اور اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھے کو پی ڈی ایم نے نیوٹرلز کی باتوں میں آکر محفوظ رستہ دے دیا۔ اس کا خمیازہ پی ڈی ایم کو یوں بھگتنا پڑا کہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے میدان مار لیا اور بیس میں سے سترہ سیٹیں جیت لیں۔اتنی بڑی تحریک چلانے کے باوجود پی ڈی ایم محض مرکز میں ہی حکومت حاصل کر سکی ہے۔
پی ڈی ایم قیادت راجہ پرویز اشرف کو متفقہ امیدوار لانے پر رضا مند
پنجاب اور خیبر صوبائی حکومتیں بدستور پی ٹی آئی کے پاس ہیں۔ عوام کی گالیاں اور بدعائیں مسلم لیگ ن لے رہی ہے اور وزارتوں کے مزے زرداری کی پیپلز پارٹی لوٹ رہی ہے۔آصف علی زرداری کی جان جس طوطے میں ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اور شہباز شریف کی جان والا طوطا زرداری کے پاس ہے۔ مسلم لیگ ن عملاً آصف علی زرداری کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے۔اس ساری سیاسی صورت حال کے اثرات بلاشبہ مقامی سیاست پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ تحصیل گوجرخان میں سیاسی حلقوں میں یہ بات کی جارہی ہے کہ پی ڈی ایم گوجرخان سے نیشنل اسمبلی کے لیے پیپلز پارٹی جبکہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے لیے مسلم لیگ ن سے امیدوار لے گی جبکہ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت اس سے انکار کر رہی ہے۔ راجہ جاوید اخلاص کا کہنا ہے کہ قومی سطح پر قائدین نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا اگر کیا بھی تو ہم ہر صورت اپنا الیکشن لڑیں گے۔ ان کی بات میں اس لیے بھی وزن ہے کہ اگر ایم این اے کے لیے مسلم لیگ ن میدان خالی چھوڑتی ہے تو تحصیل گوجرخان سے اس کی سیاست کاخاتمہ ہوجائے گا۔راجہ پرویز اشرف ایک منجھے ہوئے سیاست دان اور قومی سطح کے لیڈر ہیں۔ مقامی سطح پر ان کی سیاست کے روح رواں ان کے چھوٹے بھائی راجہ جاوید اشرف ہیں۔ راجہ پرویز اشرف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مقامی قائدین کے درمیان فرق راجہ جاوید اشرف ہی ہیں جو اپنے بڑے بھائی کی غیر موجودگی میں حلقے کے عوام کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں۔جیسے ہی پی ڈی ایم کو حکومت ملی اور راجہ پرویز اشرف نے سپیکرشپ سنبھالی تو راجہ جاوید اشرف نے پوری تحصیل گوجرخان کا سروے کرا ڈالا۔ ہر گلی محلے میں رولا پڑا ہوا تھا کہ آج ہمارا سروے کوئی کہہ رہا تھا کہ کل ہمارا ہوگا۔ حالانکہ جاننے والوں کو پتہ تھا کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ تھا۔ لوگوں نے اس ”سروے فلم“ کا مذاق بھی بنایا۔ دوسری جانب پنجاب کے عارضی وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی ہدایت پر مقامی مسلم لیگیوں نے بھی ”دو کروڑ فی یونین کونسل“ کا راگ الاپنا شروع کردیا، کوئی کہہ رہا تھا یہ ترقیاتی فنڈز وزیر اعلیٰ سے قاضی وقار کاظمی لے کر آرہے ہیں تو کوئی سہرہ راجہ محمد حمید کے سر باندھ رہا تھا۔ خیر دونوں پارٹیوں کے ڈرامے بازیوں کا عوام کو بخوبی علم تھا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ بجلی کے کام راجہ پرویز اشرف کی وساطت سے ہونا شروع ہوگئے، رُکے ہوئے بجلی کے میٹرز یا ٹرانسفارمر اور گیس کا کم پریشر بھی حل ہونا شروع ہوگیا اس کی وجہ گیس اور بجلی کے دونوں وفاقی محکموں پر وزارت عظمیٰ کے دوران راجہ پرویز اشرف کا ہاتھ بیٹھا ہوا تھا۔ گیس کے نئے میٹر کی تنصیب میں انہیں ناکامی ہوئی کیونکہ حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔راجہ پرویز اشرف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے نچلی سطح پر عوام اور کارکنان خاص کر نوجوانوں سے رابطہ قائم کررکھا ہے۔ ایک عام آدمی بھی جب راجہ پرویز اشرف کو کال کرے تو وہ اس کی کال ناصرف اٹینڈ کرتے ہیں بلکہ اس سے جانتے بھی ہوتے ہیں۔ ان کے اس رویہ کی وجہ سے عام آدمی ان سے متاثر رہا ہے لیکن اب صورت حال میں بدلاؤ آتا جارہا ہے۔ مقامی قیادت نہیں چاہتی کہ راجہ جاوید اشرف یا راجہ پرویز اشرف ہماری سفارش کے بغیر عام لوگوں کے کام کریں اگر ایسا ہوا اور ایسا ہو بھی رہا ہے تو اس کا خمیازہ لامحالہ راجہ برادران کو بھگتنا پڑے گا۔
قائدین نے کوئی فیصلہ نہیں کیا اگر کیا بھی تو ہم الیکشن لڑینگے‘جاوید اخلاص
مسلم لیگ ن کی قیادت قومی کی طرح مقامی سطح پر بھی شدید اختلافات کا شکار ہے۔ چوہدری محمد ریاض اور راجہ جاوید اخلاص کے اپنے اپنے دھڑے ہیں۔ ماضی میں تحصیل گوجرخان کو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور یہ کوئی غلط بھی نہیں تھا کیونکہ مسلم لیگ ن یہاں سے بھاری اکثریت سے جیتتی رہی ہے، پیپلز پارٹی اس وقت جیتی ہے جب مسلم لیگ ن اندرونی طور پر گروہ بندی اور خلفشار کا شکار ہوئی۔ اب بھی مسلم لیگ ن میں اختلافات کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچے گا اور راجہ پرویز اشرف کی خواہش ہوگی کہ یہ اختلافات برقرار رہیں۔تحریک انصاف مقبولیت کی انتہائی نچلی سطح پر چلی گئی تھی۔ ہم انہی سطور میں لکھتے رہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہی ہوگا کہ تحریک انصاف دوبارہ زندہ ہوسکے اور پھر پی ڈی ایم نے زرداری کے اشارے اور خواہش پر یہ کرشمہ کر دکھایا اور پی ڈی ایم کو ناصرف کلین چٹ دے دی بلکہ اسے دوبارہ مقبولیت کی انتہائی سطح پر بھی پہنچا دیا۔ تحریک انصاف نے جنرل پرویز مشرف کی ق لیگ کی طرح معدوم ہوجانا تھا۔ وہ پاکستان تحریک انصاف جو دفاعی لائن میں چلی گئی تھی اب جارحیت پر اتر آئی ہے اور آئے روز عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت ضمنی الیکشن میں اس کی کامیابی ہے۔ پی ڈی ایم اور شہباز حکومت نے عوام پر مہنگائی کے ایٹم بم برسا کر تحریک انصاف جو وینٹی لیٹر پر چلی گئی تھی کو دوبارہ زندہ کردیا۔مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی کے پاس سٹریٹ پاور تو ہے لیکن ووٹ بینک کی کمی ہے۔ لوگ انہیں نوٹ تو دیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں۔ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پاکستان کی عوام نے جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کو اربوں روپے دیے۔ لوگوں کی مدد کے لیے تو وہ ان پر اعتماد کرتے ہیں انہیں دیانتدار و امانتدار سمجھتے لیکن یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ الیکشن میں وہ منتخب انہیں ہی کرتے ہیں جنہیں بعد میں چور اور ڈاکو کہتے ہیں۔ بہر حال مذہبی جماعتوں کے پاس ووٹ بینک بھلے کم ہے لیکن ہمیشہ گیم چینجر ثابت ہوتے ہیں۔