گاؤں کی زندگی کا حسن یہ بھی تھا کہ کوئی کام شروع کرنا ہو اس کے لیے عزیز اوقارب‘عقلمند‘بزرگ قاضی امام مسجد سے پوچھ کر کرتے تھے دن مختص ہو تا سب جمع ہو کر آٹا کے اندر شکر ملائی جاتی جسے عرف عام میں کچی کڑاہی کہتے ہیں دعا کے ساتھ کام کا آغاز ہوتا تھا زمین داری کے حوالے سے اکثر بحث ہوتی رہتی کہ اس زمینمیں کیا کاشت کیا جائے گھر بنانا ہو تو بنیاد کی تعمیر کے وقت بھی یہی عمل دہرایا جاتا تھا چھوٹے سے چھوٹے کا م سے لے کر بڑے سے بڑے کاروبار کے آغاز تک کے لیے ایسا ہی اہتمام کیا جاتا تھا ایک لفظ ”سیت“ مشہور تھا یہ مشورہ کے ضمن میں ہی تھا۔کہ کسی صاحب الرائے کی با ت پر من و عن عمل کیا جا تا تھا ایسے کاموں میں نقصان کا احتمال کم سے کم ہوتا تھا مشورہ دینے والے لوگ دست بازو بنتے تھے مکان کی کچی چھت پر مٹی ڈالنے کے دن دوستوں اور رشتہ داروں کی دعوت ہوتی تھی اسے لادی ڈالنا کہتے تھے۔
ٹھیکداری نظام آنے کی وجہ سے اب مشورہ عمل سب کمرشل ہو گیا ہے نقشہ نویس انجینئرز نے مقامی رائے ساز لوگوں کی جگہ لے لی ہے اس لیے بڑی بڑیعمارتیں بن جاتی ہیں مگر کوئی حال پوچھنے والا نہیں ہوتا لاکھوں کروڑوں خرچ کرتے ہیں تعریف کے لیے آدمی میسر نہیں۔گاؤں کی زندگی کے رنگ دن بدن پھیکے
پڑتے جا رہے ہیں زندگی مل بیٹھنے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا نام ہے گاوں میں زندگی گزارنے کا مقصد ہی یہی ہے ایک دوسرے سے ہم کلام رہا جائے مشورے سے کام کیا جائے بھائی چارہ ہمدردی ہو اگر اس طر ح کی زندگی گزارنے کی تمنا نہیں الگ تھلگ دیگر لوگوں سے بیزار ہوکر نفرت کرنا ہے\
توکہیں دور یا شہر جا کرآباد ہو جائیں گاوں کا مخصو ص طرز حیا ت جو کبھی ہماری پہچان رہا اسکے مطابق رہنا ہی مناسب ہے ایک دوسرے کو جاننا ان سے محبت کرنا اجتماعی کاموں میں شرکت کرنا،دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا اور غم اور تکلیف خود بھی محسوس کرنا یہ سب زندہ ہونے کی مثالیں ہیں ہم دوسرے مسلمان کواسلام کی رو سے سب سے پہلےبھائی تسلیم کریں محبت اور ہمدردی کا جذبہ اس سے پیدا ہوتا ہے دوسرے کو نقصان پہنچانے کاخیا ل دل میں کبھی نہ لائیں اس سے معاشرہ امن کا مسکن بنتا ہے ہم غور و فکر کے بجائے سر سری حالات کو مد نظر رکھ کر فوراً دوستی یا دشمنی کا فیصلہ کر لیتے ہیں بری فطرت والے لوگ برے لوگوں کے ہمنوا بنتے ہیں اور اچھی فطرت کے مالک لوگوں کا انتخاب معاشریکےبہترین لوگ کرتے ہیں ان بہترین لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا انھیں غلطکاموں کی طرفٖ نہیں جانے دیتا مخالٖف جذبات پیدا نہیں ہوتے شب و روز سکون سے گزرتے ہیں گاؤں کے لوگ خلفشار کا شکار ہو چکے ہیں خصوصا ًراولپنڈی ڈویژن کے گاؤں جہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں آئیں اور زمینوں کی خرید و فرو خت ہو رہی ہے وہاں ساز باز اور وعدہ خلافیاں عام ہونے
کی وجہ سے آپس میں نفرت رشتوں میں دراڑیں آچکی ہیں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں معززین اور سفید پوش بھی دھڑے بندی کا شکار ہو چکے ہیں مذہبی لوگ بھی اس آٓلودگی سے محفوظ نہیں غرض کہ دھوکہ اور فراڈ کے کلچر نے رشتوں کو اس قدر پامال کر دیا ہے کہ گاؤں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں وسائل اور سہولیات پہلے سے ہی کم ہیں اب بھائی چارہ اور ہمدردی کم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو خواہ مخواہ تکلیف دینے کے رویوں نے گاوں میں رہنا محال کردیا ہے یہ کیسے ایک دوسرے کے قریب رہنے والے ہیں
جن کو دوسرے کی تکلیف دور کر نا نہیں آتا بلکہ اس کے لئے مسائل اور تکالیف پیدا کر نے کے لئے منصوبے بنانا آسان لگتا ہے اس کو انسانیت کہیں یا کیا نام دیں ہم بین الاقوامی اور قومی نا انصافیوں پر نوحہ کناں رہتے ہیں ہمیں فلسطین اور کشمیر، افغانستان، عراق،شام اور یمن میں مسلمانوں پر کافروں کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم و ستم بر ے لگتے ہیں جبکہ روز مرہ زندگی میں جہاں جہاں ہمارا انفرادی زور چلتا ہے ہمارا رویہ عمل کسی طرح ان بین الاقوامی ظالموں سے مختلف نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے سے فراڈ، دھوکہ ناحق قبضہ، قرض کے ذریعے بلیک میلنگ زمینوں کی حد بندیوں میں نا انصافی اور سادہ لوگوں کو ہر جگہ ذلیل و خوار کرنا یہ ہمارے معمولات ہیں اور پھر بھی ہم ظالم کہلوانا پسند نہ کریں۔ گاؤں میں برادری رشتہ داری کا دم بھی بھریں اور تکلیف کے لئے صبح شام منصوبے بنائیں اور ان پر عمل کرنا فخر جانیں یہ کیسا طرز زندگی ہے
اس پر غور فکر کی بہت زیادہ ضرورت ہے گاؤں کے اندر رہنے والوں کو ہر ہفتے ایک جگہ جمع ہونا چاہئے وقتاً فوقتاً پیداہونے والے مسائل پر غور وفکر اور مستقبل کے لئے بہتر منصوبہ جات پر رائے لی جائے بہت سے گاؤں میں فوتگی کے دن کے لئے کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں بہت اچھا کام کر رہی ہیں گھر والوں کو کوئی تنگی یا بوجھ پہلے دن محسوس نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کچھ دیگر مسائل مثلاً راستوں کی کشادگی اور نالیوں کی تعمیر کی ذمہ داری اٹھائیں تو بہت بہتر ہو۔ آج کل تنازعات کو مٹانے کے لئے معززین دستیاب نہیں جو ہیں وہ اتنے خوف زدہ ہیں کہ
حق بات کہنے سے ڈرتے ہیں ہمارا مستقبل معززین سے خالی ہوتا جا رہا ہے پرانے لوگ اپنی حق گوئی کی صلاحیت کی وجہ سے کھڑپینچ نمبردار تھے آج اگر متنازعہ لوگوں کی بھر مار ہے جو پارٹی بازی دھڑہ بندی اور مخالفت کی وجہ سے تو کردار ادا کرتے ہیں مگر صلح اور نقصان سے بچانے کے لئے ان کا کردار منفی ہوتا ہے وہ اس معاملے میں بالکل پیدل ہوتے ہیں ہماری بد قسمتی کہ بات کرنے کا ہنر سمجھانے کے فن سے آشنا اور نفرت ختم کرنے والے لوگ ناپید ہو گئے ہیں اسی لئے گاؤں میں ایک گھر ہے اور رائے مختلف بڑے فیصلوں کے لئے بچوں کے محتاج اور عورتیں اپنے فیصلوں کی وجہ سے مردوں پر حاوی نظر آتی ہیں یہ گاؤں کی زندگی ہر گز نہیں پہلے ہمارے گاؤں ایسے نہ تھے
جیسے اب ہیں ہر ایک کی اپنی حد تھی استاد بزرگ، امام مسجد اور نمازی سب کی اہمیت تھی اگر آج یہ سب کچھ برباد ہو چکا ہے تو ہمارے لئے لمحہ فکر یہ ہے۔ ہم گاؤں میں رہنا چاہتے ہیں تو ان سب باتوں کو دوبارہ اپنانا ہوگا پرانی روایات کو دوبارہ زندہ کر نا ہو گا۔گاؤں میں رہنا ہے تو سب کے ساتھ مل کر رہنا ہو گا ایک دوسرے کی حق تلفی سے باز آنا ہو گا۔ بار بار کی لاتعلقی کو ختم کر کے باہم شیر وشکرہو کر زندگیگزارنا مقصد اولین بنانا ہوگا فسادی لوگوں کو بتانا ہو گا کہ آپ کی جگہ ہمارے گاؤں میں نہیں ہییہاں مل کر رہنے والے ہی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہر وقت حالت جنگ میں شریف لوگ کیسے رہ سکتے ہیں گاؤں کے ماجھے ساجھے ٹھیک تھے آج کے ٹونی، پپو سے بہت بہتر تھے