بلدیاتی الیکشن ہوئے تقریباً سات ماہ گزرچکے ہیں مگر ابھی تک نہ مخصوص نشستوں کے الیکشن ہوئے اور نہ ہی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین کا انتخاب ہوا۔ تحصیل بھر کے چیئرمینوں نے بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے
اور علاقے کے مسائل حل کرنے کے لیے اتحاد کر لیا ہے۔ باقاعدہ ہر ماہ اجلاس بھی منعقد کیے جاتے ہیں جبکہ وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی موجودگی میں ڈی سی او راولپنڈی کے دفتر میں میٹنگ بھی ہوئی اور طے کیا گیا کہ تمام معاملات میں چیئرمینوں سے مشاورت کی جائے گی ۔میجر(ر)عبدالرؤف راجہ کی سربراہی میں یہ اتحاد ابھی تک قائم ہے اور اس کا مقصد صرف اور صر ف عوام علاقہ کے مسائل حل کرنا ہے۔ چیئرمینوں میں ایک اچھا جذبہ ہے کہ اداروں سے رشوت اور اقربا پروری کا خاتمہ کیا جائے اور تمام معاملات میرٹ پر کیے جائیں ۔مگر سچی بات یہ ہے کہ ان اداروں کو خراب کرنے والے بھی یہی سیاستدان ہیں جو تھانہ کچہری کی سیاست کرتے ہیں اور ملزمان کی پشت پناہی کرتے ہیں بلدیاتی الیکشن کے تمام بلدیاتی نمائندوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کو بجٹ میں فنڈز فراہم کیے جائیں اور اختیارات دیئے جائیں تاکہ عوام سے جو وعدے کرکے ہم کامیاب ہوئے ان کو پورا کیا جائے۔ مگر حکومت اس وقت جس بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے کیا پتہ کہ بلدیاتی اداروں کا مستقبل کیا ہوگا۔بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات ملنے سے جہاں لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہونے میں مددملے گی وہاں حکومت بھی مضبوط ہوگی ۔ضلعی چیئرمین کے لیے تحصیل کہوٹہ سے حافظ عثمان عباسی، راجہ شوکت اقبال جنجوعہ، بلال یامین ستی اور راجہ عامر مظہر جوکہ اس قبل بھی ممبر ضلع کونسل رہے ہیں امیدوار ہیں ۔جس طرح کہ سب کو علم ہے کہ مسلم لیگ ن حلقہ پی پی IIمیں دو دھڑوں میں تقسیم ہے اور گذشتہ لیکشن میں اسی وجہ سے مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دینے کے بجائے زیادہ تر حلقوں کو اوپن رکھا اور یہی وجہ ہے کہ الیکشن میں زیادہ تر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جو بعد میں پارٹیوں میں شامل ہوگئے۔اس وقت زیادہ تر چیئرمینوں کا رخ وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی طرف نظر آتا ہے ۔ضلع راولپنڈی کی چیئرمین شپ کے لیے ہوسکتا ہے کہ راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری نثار احمد کے آدمی بھی ہوں مگر محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس مرتبہ تحصیل کہوٹہ کو نمائندگی مل جائے۔ چند روز قبل راجہ عامر مظہر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا حالانکہ میں اکیلا امیدوار تھا مگرا س کے باوجود مجھے ٹکٹ نہ ملا اس کے باوجود میں نے پارٹی میں شمولیت کی اور چیئرمین شپ کے لیے درخواست بھی دے رکھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ میرٹ پر فیصلہ ہوگا اور جو فیصلہ پارٹی کرے گی مجھے قبو ل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے موقع ملا تو اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کا ر لاکر ضلع بھر کے عوام کی بلاتفریق خدمت کروں گا۔ راجہ شوکت اقبال جنجوعہ اور بلال یامین ستی بھی متحرک ہیں اب دیکھتے ہیں کہ قیادت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کو مقامی سطح پر اختلافات ختم کر کے یکجا ہوکر ایم این اے اور ایم پی اے کی مشاورت سے کام کرنا چاہیے ۔میونسپل کمیٹی کی چیئرمین شپ یا ضلعی متفقہ طور پر فیصلے کرنا ہوں گے اور ان فیصلوں میں کہوٹہ سٹی اور تحصیل کے عہدیداران کی مشاورت بھی ہونی چاہیے۔ اعلیٰ قیادت نے اگر صرف اپنے ایک دو بندوں کی باتوں پر انحصار کرکے فیصلے کیے تو شاید اس کا پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان ہو ۔سیاست میں دیگر جماعتوں کے کونسلرز کی چکنی چوپڑی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے اپنے اندر کے اختلافات ختم کر کے مسلم لیگ ن کے مخلص عہدیداران اور کارکنان کو اعتماد میں لیا جائے۔ اس وقت میونسپل کمیٹی کی سیاست نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔پیپلز پارٹی کہوٹہ کے صدر آصف ربانی قریشی جن کے سات کونسلرز ہیں پانچ پارٹی کے اور دو آزاد جن میں قاضی اخلاق کھٹڑ کا تعلق پاکستان تحریک انصاف اور قاضی عبدالقیوم جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے اور وہ آزاد کشمیر مسلم لیگ ن کہوٹہ کے صدر بھی ہیں جبکہ دوسرے گروپ میں بھی سات کونسلز ہیں پانچ مسلم لیگ ن ایک پاکستان تحریک انصاف اور ایک جماعت اسلامی کا۔ سیاست میں جب گروپ بنتے ہیں تو اس وقت قول و اقرار بھی ہوتے ہیں اور میونسپل کمیٹی میں بھی شاید ایسا ہی ہے ۔ملک غلام مرتضیٰ ،سید زرین شاہ اور حاجی ملک عبدالرؤف نے راجہ سعید احمد ایڈووکیٹ، راجہ ظہور اکبر اور دیگر کو صاف کہہ دیا تھا کہ آ پ چار میں سے جس کو چیئرمین شپ کے لیے نامزد کریں گے ہم آپ کے ساتھ ہیں اس وقت گیم ان چار کونسلرز کے پاس ہے کہ وہ آپس میں متفق ہوں گے یا پھر چیئرمین شپ کے لیے اپنے گروپ کو توڑ کر اپوزیشن میں بیٹھیں گے ۔اس وقت حالات ایسے جارہے ہیں کہ میونسپل کمیٹی میں کسی بھی وقت پوزیشن بدل سکتی ہے آصف ربانی قریشی اپنے سات کونسلرز سمیت چیئرمین مسلم لیگ ن راجہ محمد ظفر الحق سے ملاقات کر کے آئے ہیں اور نہ صرف ان سے سرپرستی کی درخواست کی بلکہ آئندہ الیکشن میں راجہ محمد علی کا ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا ۔یہ الگ بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے صدر بڑے الیکشن میں ایسا کرپائیں گے پارٹی ان کو اجازت دے گی یا وہ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اصل میں اگر پارٹی میں گروپ بندی نہ ہوتی تو راجہ ظہور اکبر ایم پی اے کو چھوڑ کر آزاد امیدوار کی حمایت نہ کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے اور میونسپل کمیٹی میں اتنی بحرانی کیفیت نہ ہوتی ۔وقت کا تقاضا ہے کہ راجہ ظہوراکبر یا تو اختلافات ختم کر کے راستہ ہموار کریں یا تو فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راجہ سعید احمد کو نامزد کردیں۔ سیاست میں اگر پیپلز پارٹی سب سے مل سکتی ہے تو مسلم لیگ ن کے گروپوں کو بھی تمام تر اختلافات ختم کر کے ایک پلیٹ فارم پر ہونا چاہیے گردونواح کو متضاد خبریں مسلم لیگ ن کے گروپ میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ راجہ محمد علی نے تھوہا خالصہ میں جدید دس بیڈ کے ہسپتال کے لیے دس کروڑ سے زائد فنڈز دیئے جس پر کام شروع ہے جبکہ پیکاں سے تھوہا خالصہ کی سڑک کے لیے سات کروڑ سے زائد کے فنڈز مہیا کیے ۔شاہد خاقان عباسی نے بھی سوڑ میں کروڑوں کے فنڈز دیئے جبکہ ہسپتال کے لیے بھی ساڑھے تین کروڑ کی لاگت سے تعمیر ہوئی ہے۔ناقص میٹریل کی وجہ سے کھنڈرات بن گئی ہے اور خاص کر کہوٹہ بائی پاس کی تعمیر نہ ہونے سے کلر چوک میں گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے۔