155

کہوٹہ عوامی نمائندوں کی عدم توجہی کا شکار

ضلع راولپنڈی کی سب سے پرانی ایٹمی تحصیل کہوٹہ 76 برس گزرنے کے باوجود اس جدید دور میں بھی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محروم کہوٹا شہر کی لاکھوں کی ابادی کروڑوں روپے کے ٹیکس دینے کے باوجود بنیادی سہولیات سے محروم ادارے کرپشن کا گڑھ بن گیا

جبکہ نہ ہی عوامی نمائندوں کو علاقے کے مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی یہاں پر کوئی اپوزیشن نظر ارہی ہے ہر منتخب ہونے والے ایم پی اے اور ایم این اے جو نظریاتی اور قربانیاں دینے والے ورکرز اور کارکنوں کی شب و روز محنت سے کامیاب ہوتے ہیں وہ کامیاب ہو کر اپنے قریبی رشتہ داروں کو فوکل پرسن یا فرنٹ مین لگا دیتے ہیں

جو پانچ سال کام تو کرتے نہیں انتظامیہ اور عوام سے پروٹوکول لیتے رہتے ہیں تحصیل کہوٹہ میں جرنیل ہوں سیاسی قیادت ہو بیوروکریسی ہو کمی نہیں مگر صرف اپنے مفادات کی خاطر سب کام کرتے ہیں

چیئرمین راجہ ظفر الحق سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی راجہ صغیر احمد کرنل شبیر عوان غلام مرتضی ستی صداقت عباسی کے علاوہ بھی بہت سی قد آور شخصیت نے اقتدار کے مزے لوٹے میاں نواز شریف سے لے کر عمران خان شاہد عباسی سب نے وعدے کیے

کسی نے سہالہ اوور برج کسی نے کہوٹہ پنڈی موٹروے کسی نے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال کسی نے کسی نے یونیورسٹی کسی نے سڑکوں کے وعدے کیے مگر افسوس اس علاقے کی بھولی اور سادہ عوام نے ہمیشہ ایسے لوگوں کو منتخب کیا جنہیں پھر پانچ سال اس علاقے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا

تحصیل کہوٹہ جس کو کاٹ کر تحصیل کلر سیداں اور کوٹلی زدیوں کو تحصیلیں بنایا گیا آج وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ اور مقامی قیادت باشعور تھی اس لیے اج وہ ہم سے آگے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے نمائندوں نے یونیورسٹی کالجز دینے کے بجائے 38 سالہ کامرس کالج جس میں صرف غریبوں کے بچے صرف پانچ ہزار فیس میں تعلیم حاصل کرتے تھے

ان کو محروم کیا گیا اور بجائے اس کے اس کو اپ گریڈ کیا جاتا کسی کہوٹہ میں سرکاری بلڈنگ میں شفٹ کیا جاتا اس کو ختم کر کے بچوں کا تعلیمی قتل کیا گیا جس میں پنجاب حکومت یہاں کے ایم این اے ایم پی ایز فوکل پرسن اور مقامی قیادت جو صرف اپنے مفادات کی خاطر پالشی کا کردار ادا کرتی ہے

وہ ذمہ دار ہیں کئی احتجاج ہوئے کئی دفعہ مقامی قیادت اور منتخب نمائندوں کو بتایا گیا مگر غریبوں کے بچوں کے لیے کسی نے کچھ نہ کیا اج وکلا برادری نے ہائی کورٹ میں سٹے لیا ہے

اللہ کرے یہ بحال ہو باقی عوام اگر آج بھی اپنے حقوق کے لیے نہ اٹھے تو ان کا استعمال ہوتا رہے گا نہ یونیورسٹی بنے گی نہ کالجز نہ سڑکیں تحصیل کا ہونٹا کہ ادارے کرپشن کا گڑھ بنے ہوئے ہیں پولیس تھانہ کا ہوٹا کی سرپرستی میں منشیات فروش وں چوری ڈکیتی لینڈ مافیا اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے جب کہ ہمارے نام نہاد مقامی سیاسی قائدین ان کے قصیدے پڑھتے ہیں تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور پھول پیش کرتے ہیں جس کا مقصد اپنے اپنے مفادات کاروبار کا تحفظ ہے

بجائے عوامی حقوق کی بات کرنے کے ان کو پروموٹ کرتے ہیں واپڈا دیکھیں ہسپتال دیکھیں ہر جگہ کرپشن ہی کرپشن ہے مگر ہمارا ایم سی کا ادارہ جو افسران سے لے کر نچلی سطح تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے اور صرف مال بٹورنے پر لگا ہوا ہے سی او کی سرپرستی میں یہ ایک پوری گینگ ہے جو شہر میں تجاوزات کا تحفظ کرتی ہے

اور پورے شہر کو انہوں نے ریڈیو سوزوکیوں رکشوں پر سامان لگوا کر شہر کو پیدل چلنے والوں کے لیے مشکل کر دیا کلر چوک بس سٹینڈ پر بھی ریڑھیاں لگوا دی جبکہ لاری اڈا میں دکانوں میں بھی لاکھوں کی کرپشن ہوئی اج سی او اور دیگر عملے کی ملی بھگت سے بھٹو دور کے بتائے ہوئے لاری اڈے کے دو سٹینڈز پر قبضہ کرا دیا وہاں دکانوں کے علاوہ دیگر ریڈی والوں سے ماہانہ 15 ہزار سے 20 ہزار روپے بٹورے جاتے ہیں

ایم سی کاٹا بجائے عوامی مفاد کے منصوبے شروع کرنے کے جعلی منصوبے اور جالی بل بنا کر لاکھوں روپے بٹورتی ہے سابق ٹاؤن راجہ طارق محمود مرتضی کے دور میں سبزی منڈی بنائی گئی تاکہ ایک ایسی جگہ پر عوام کو سبزی فروٹ چکن دیگر سہولیات میسر ہوں اور ایم سی کو ریلیف ملے مگروہ خالی پڑی ہے ایک سازش کے تحت غریبوں کو اٹھایا گیا جو ماہانہ کرایہ بھی دیتے تھے اور اپنی مدد اپ شیڈ بناتے تھے

ان کا لاکھوں کا نقصان ہوا شہر میں صفائی کے ناقص انتظامات 55 سے 60 سینٹری ورکر ہیں مگر کام کرنے کے لیے صرف 10 سے 15 ہیں صرف شہر میں فوٹو سیشن کر کے سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہے باقی سینٹری ورکرز کلاس فور ملازمین کو تجاوزات ہٹانے جرمانے کرنے

اور بھتہ نہ دینے والوں کے خلاف کاروائی پہ لگا دیا گیا حالانکہ یہ غیر قانونی ہے لاکھوں کا سامان ضبط کر کے واپس نہیں دیا جاتا سفارش اور رشوت کے بغیر میرٹ پر بھی کوئی کام نہیں ہوتا کئی سالوں سے نہ سپرے ہوا اور نہ ہی گلی محلوں میں سٹریٹ لائٹس موجود ہیں 80 کروڑ سے زاہد فنڈز خرچ ہو چکے

مگر آج بھی 30 فیصد لوگ صاف پانی سے محروم ہیں سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں شہر میں من چاہیریٹ ایم سی اور اے سی کہوٹہ کی طرف سے رمضان بازار سستا بازار سہولت بازار مکمل ناکام صرف کرسیاں میز لگا کر بل ہڑپ کیے جاتے ہیں

جبکہ کہوٹہ شہر میں روزانہ چھ سے آٹھ ٹنکرز ملاوٹ شدہ کیمیکلز والا دودھ آتا ہے ایک ایک شخص نے چار چار پانچ پانچ دکانیں کھولی ہیں محکمہ صحت اور انتظامیہ خاموش جبکہ حال میں کرپشن کی انتہا ہو چکی ہے

عوام علاقہ شہریوں نے ایم سی کے کرپٹ افسران اور اہلکاروں کے خلاف فوری شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کمشنر راولپنڈی اور منتخب نمائندوں سے کھلی کچہری لگا کر شہریوں کے مسائل سننے اور حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں