187

کہوٹہ‘سول ہسپتال مسائل کی آماجگاہ

لاکھوں کی آبادی والی تحصیل کہوٹہ 76 برس گزرنے کے باوجود جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم تحصیل کہوٹہ کو ایک سازش کے تحت بلکل تنہا کر دیا گیا

پہلے اس تحصیل سے 2 تحصیلوں کو جنم دیا گیا جو کوٹلی ستیاں اور کلرسیداں ہیں چند سال قبل بننے والی تحصیلوں میں آج صحت تعلیم کی سہولیات کماحقہ موجود نہ ہیں

افسوس کہ ہمارے نمائندے مقامی سیاسی کھڑپینچوں نے ذاتی مفاد کو مدنظر رکھا اور عوام کے مسائل حل نہ کیے یوں تو تحصیل کہوٹہ جہاں زیادہ تر حکومت مسلم لیگ ن کی رہی اور شاہد خاقان عباسی اس حلقے سے وزیر اعظم رہے تقریبا 2 مرتبہ راجہ محمد علی اور تین مرتبہ راجہ صغیر احمد منتخب ہوئے

کرنل شبیر اعوان، غلام مرتضی ستی کو بھی موقع ملا تقریبا ساڑھے تین سال پی ٹی آئی کی حکومت بھی رہی مگر عوام کے مسائل جوں کے توں رہے سات سال ہو گئے

کہوٹہ پنڈی روڈ تعمیر نہ ہوئی یونیورسٹی کا نعرہ لگانے والوں نے کامرس کالج بھی چھین لیا۔36 سرکاری سکولوں کو فروخت کر دیا پنجاڑ تا نڑھ روڈ کے 26 کروڑ کرپشن کی نظر پہلی سڑک بھی اکھاڑ دی گئی۔

ٹورازم ہائی وے کو من پسند افراد نے اپنی مرضی سے روٹ تبدیل کیے اربوں کی کرپشن ہوئی 22 کروڑ ایک اور 42 کروڑ ایک کہوٹہ شہر کی واٹر سپلائی کا خرد برد کیا گیا 20 فیصد لوگوں کو بھی پانی نہ ملا ایک عارضی انجینئرپبلک ہیلتھ ٹھیکدار اور دیگر عملے نے کروڑوں کی کرپشن کی

شہر کی سڑکیں کھنڈرات تجاوزات کی بھرمار سٹریٹ لائٹس نہ ہیں جبکہ بلوں کی مد میں ایم سی کڑوروں کی کرپشن میں ملوث مگر نہ کسی نمائندے نہ مقامی قیادت نہ انتظامیہ کے کسی اعلی افسر کو جرات ہے۔

خیر یہ تمام مسائل تو ہیں مگر آج میں اس تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کے حوالے سے بتاؤنگا جسکو سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانے کے وعدے ہوئے کسی ایم پی اے نے 100 بیڈ کا کہا 75 کنالوں پر تعمیر یہ بلڈنگ مریضوں کو دیکھ منہ چڑاتی ہے نہ صرف لاکھوں کی کہوٹہ کی آبادی بلکہ آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے بھی یہ ہی ہسپتال ہے

وزیر اعلی پنجاب مریم نواز جو اعلان کرتی ہیں کہ بی ایچ یو 24 گھنٹے سروس ہوگا مگر ٹی ایچ کیو ہسپتال کہوٹہ 2 بجے کے بعد ایمرجنسی کے علاوہ سب کچھ بند ہو جاتا ہے سالانہ اڑھائی کروڑ کی ادویات کے فنڈز ہونے کے باوجود عوام کو باہر کی پرچی تھما دی جاتی ہے

کسی خوش نصیب کو دو چار گولیاں مل جائیں یا ایک ادھ شربت معدے اور کھانسی کے شربت نایاب ہیں ڈسپنسروں کی کمی آسامیاں خالی کلاس فور اور سینٹری ورکرز ڈیوٹی دیتے ہیں او ٹی اے بھی کوئی نہیں آرتھو پیڈک سرجن کی آسامیاں خالی ڈیڑھ سال سے ای این ٹی کی سیٹ خالی ریڈیالوجسٹ سال کی

چھٹی پر صحت سہولت کارڈ کے باوجود آپریشن کا سامان اور ادوویات مریض باہر سے منگواتے ہیں جبکہ داخل مریضوں کو بھی باہر کی پرچی تھما ڈی جاتی ہے۔ لیبارٹری میں بھی نہ جدید سہولیات ہیں

اور نہ عملہ سینٹری ورکر اور کلاس فور ٹیسٹ کرتے ہیں۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے آج تک ڈیجیٹل ایکسرے مشین نہ دے سکے ایکسیڈنٹ کے دوران بھی برائے نام ایکسرے کیے جاتے ہیں

گائنی کے مریضوں کو ٹیسٹوں کے لیے کئی کئی ہفتوں کا ٹائم دیا جاتا ہے انکے ٹیسٹ حکومت نے مفت کرنے کا حکم دیا ہے ٹیسٹ والے مریضوں کو سہولت کار باہر لیبارٹریوں میں بھیج دیتے ہیں

اسی طرح ڈلیوری کے مریضوں کو ٹالنے کے لیے 2 سے 3 بوتل خون مانگا جاتا ہے جو غریب لوگ مہیا نہیں کر سکتے اور پرائیویٹ کلینکوں میں یہی لیڈی ڈاکٹرز نارمل آپریشن کر کے تیس سے چالیس ہزار روپے وصول کرتی ہیں۔ ہسپتال میں ایک ایسا مافیا ہے جسکے سامنے ایم ایس بھی بے بس ہیں اسی لیے ہسپتال میں من مرضی چلتی ہے

کرپشن کا گڑھ بن گیا ہے وزیر اعلی مریم نواز کی ہدایات پر مانیٹرنگ کمیٹی بنائی گئی جن میں وہی لوگ ہیں جو یا سیاسی ہیں یا انکے اپنے کلینک ہیں پنجاڑ چوک سے کلر چوک تک لیبارٹریز الٹراساؤنڈ سٹی سکین کا اتوار بازار لگا ہے

من مرضی کے ریٹ لگاتے ہیں ٹی ایچ کیو میں دو سرجن ہونے کے باوجود 24 گھنٹے او ٹی نہیں چل رہی نہ ہی کوئی میجر اپریشن ہو تے ہیں ڈینٹل ڈیپارٹمنٹ میں 3 ڈاکٹرز صرف دن کی شفت چلتی ہے

بچوں کی نرسری غیر فعال مریضوں کو پنڈی ریفر کر دیا جاتا ہے اسی طرح دیگر کئی مسائل جو اعلی حکام کی توجہ کا مرکز محکمہ ہیلتھ اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے شہر میں غیر قانونی کلینک اور میڈیکل سٹوروں کی بھرمار ہے پرائیوٹ مافیا کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے نان کوالیفائی سٹاف ڈاکٹر لوٹ مار جاری اعلی حکام فل فور نوٹس لے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں