تحریر : پیر طالب حسین شاہ
ویسے کسی کو میری آپ بیتی سے کیا لینا دینالیکن میرے لیے یہ آپ بیتی ہے آپ کے لیے جگ بیتی اور آنے والوں کے لیے تاریخ ہے ۔آپ بیتیاں جگ بیتیاں شاید یہی تاریخ ہے یہی ماضی ہے اور ماضی سے سیکھنا چاہیے ۔تاریخ کا طالب علم کہیں مار کھا جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔سوچ میں اختلاف ہونا فطری عمل ہے ، ڈاکٹرز ، وکیل ، سیاستدان ، عام آدمی اختلاف رہتا ہے بہر صورت ۔مجھے اپنے خیالات کا اظہار آپ بیتی اور جگ بیتی کے پس منظر میں اپنے مشاہدہ کے حساب سے لکھنا ہے ۔17 نومبر 1977 کو تلاش معاش کے لیے عرب کا رخ کیا ۔ریالات کی کشش نے واپسی کا رستہ بھلا دیا آنا جانا لگا رہا لیکن مستقل جانے کی ہمت نہ ہوئی اور پاکستان میں فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کی ملازمت کو چھوڑنا پڑا ۔بعض لوگ کے کچھ خواب ہوتے ہیں جن کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اور اپنی چودھراہٹ کا شوق پورا کرنے کے لیے بھی وہ پردیس کا رخ کرتے ہیں لیکن چند سال بعد ان کو ہوش آتا ہے تو واپسی کا کو ئی رستہ نظر نہیں آتا ۔میرے ساتھ بھی یہی ہوا ، سوچا دو چار سال لگا کر واپس چلا جاؤں گا لیکن وقت کی گھتیاں سلجھاتے سلجھاتے خود حالات کی چکی میں ایسا الجھا کہ آج تک نکلنا محال لگتا ہے ۔کبھی یہ سوچ کر کہ بچوں کی تعلیم کا کچھ ہو جائے پھر پاکستان واپس چلا جاؤں گا۔پھر سوچا بچے جب ملازمت پیشہ ہوجائیں اور اپنے اپنے گھر کے ہوجائیں تو پردیس کو خیر باد کہہ دوں گالیکن شاید اللہ نے اپنے گھر اورحضورﷺ نے اپنے درکے چکر قسمت میں لکھے ہیں جو جانے نہیں دیتے ۔ ظفر صاحب میرے ایک بہت ہی محترم دوست ہیں پانچ سال تک مدینہ شریف شعبہ تعلیم سے منسلک رہے ۔زمیندارہ کالج گجرات میں اسسٹنٹ پروفیسر بھی رہے ایک دفعہ ختم شریف کے موقع پر بضد ہوگئے کہ ختم کی دعا میں پڑھوں ۔خیر میں نے دعا پڑھ دی ، میں سوچ رہا تھا بھری محفل میں مجھے ہی دعا کے لیے کیوں کہا گیا؟ آخر میں اس نقطے پہ پہنچا کہ زندگی میں آپ کے اچھے اعمال اور دوسروں سے اچھاسلوک آپ کی شخصیت کو دوسروں سے منواتے ہیں ۔ایک دفعہ ظفر صاحب سے میں نے کسی بات کی وضاحت مانگی اور وضاحت مبہم صورتحال کی ہی مانگی جاتی ہے ۔میرے سے صاحب آج تک ناراض ہیں حالانکہ سوچ اگر مثبت ہو اور شک سے نہ دیکھا جائے تو کسی کو گفتگو قابل اعتراض نہیں لگتی ۔کیونکہ تسلیم کے بعد تحقیق گمراہ کردیتی ہے ،جب دوست مان لیاتو پھر غلط بھی ٹھیک لگنا چاہیے ورنہ دوستی دوستی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہیے ۔آپ سوچتے ہونگے میں کن خیالوں میں کھو گیا لیکن کیا کروں جب نظر کمزور ہو جائے تو چیزیں دھندلی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔
156