120

کٹی پتنگ/فائزہ عابد جعفری

گزشتہ دنوں کراچی میں ایم کیو ایم کی قیادت کے زیر سپرستی ، پاکستان میں نئے صوبوں یاا انتظامی اکایوں کی تشکیل کی حمایت اور حکومت کی خاموشی کے خلاف دھرنا نما احتجاج ریکارڈ کروایا گیا جس میں ایم کیو ایم کی خوش شکل

اور خوش کلام رکن خوشبخت شجاعت مظاہرین کی باگ سنبھالے ہوئے ٹیلی ویژن پر دکھائی دین۔ محترمہ خود بھی بہت جوش میں تھیں اور اپنے جیالوں کے جوش کی بھی خوب ترجمانی کر رہی تھیں۔ میڈیا نمائندے کے اس سوال پر کہ ’آپ کیا سمجھتی ہیں یہ دھرنا کب تک جاری رہے گا‘ ، محترمہ بھڑک ہی تو گئیں ، فرمانے لگیں ’’یہ دھرنا نہیں ہے اسکو دھرنا مت کہیئے ، یہ مظلوم عوام کا احتجاج ہے، یہ بیچارے لوگ اپنے حق کے حصول کی خاطر آواز اٹھانے باہر نکلے ہیں اور میں آج انکا یہ جو جوش دیکھ رہی ہوں یہ الارمنگ ہے۔۔ اب ان کے حق کی بات چل نکلی ہے اور میں آپ کو کہے دے رہی ہوں کہ یہ بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی‘‘۔ محترمہ نے بالکل درست فرمایا تھا، کیونکہ بات دور تک نکل چکی ہے، نہ صرف مہاجرستان والوں کی بلکہ قادرستان اور عمرانستان والوں کی بھی( معذرت کے ساتھ) ۔ PAT کے متوالوں اور PTI کے جیالوں کے ساتھ ساتھ ہمارے مستقبل کے رکھوالوں میں بھی خاصا شعو ر آ گیا ہے اسکی ایک دلچسپ مثال چند روز پہلے میرے مشاہدے سے گزری ، قارئین کی نذ ر بھی کئے دیتی ہوں، ہوا کچھ یوں کہ ایک گیارہ سالہ بچی جو کہ میر ی عزیزہ ہے، اپنے گھر والوں سے دس روپے کا مطالبہ کرتے ہوئے خاصی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی تھی ۔ بچی کی سر توڑ کوشش کے باوجود جب گھر والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی تو ناچار اس نے گھر والوں کو ڈیڈ لائین دے دی کہ میں آخری بار اپنا مطالبہ دوہرا رہی ہوں اگر عمل درآمد نہ نہ ہوا تو پھر میں جو کروں گی اس پر شکوہ مت کیجئے گا۔ جب دو تین منٹ کی ڈیڈ لائن گزر گئی تو بچی بگولے کی طرح اُٹھی اور جا کے گھر کے بیرونی دروازے کے دونوں پٹ کھول کے با آوازِ بلند بولی’’ میں نے سرول نافرمانی(سول نافرمانی) شروع کر دی ہے اب میں وہی کرونگی جس سے آپ سب مجھے روکیں گے اور کسی ایسی بات پر عمل نہیں کرونگی جسکی آپ تاکید کرینگے۔بچے تو پھر بچے ہیں، جو دیکھیں گے سو دکھلائیں گے جو سیکھیں گے ضرور اپنائیں گے۔ حالیہ ساسی حالات نے تو ہمیں ایسے بڑے بھی دکھائے ہیں جو نتائج کی سنگینی سے زیادہ حالات اور واقعات کی رنگینی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ٹی وی پر ایک نوجوان کو کہتے سنا کہ بھئی ہمیں تو آپ اپنے قائد کے ہر فیصلے پر سرِ تسلیم خم کر تے دیکھیں گے، ہمیں سول نا فرمانی کا حکم ملا ہے ہم ضرور اس پر عمل کرینگے اور کچھ نہ بھی کر سکے تو کیلا کھا کر چھلکا سڑک پر پھینک دیں گے ، یہ بھی تو سول نا فرمانی ہے( با این عقل و دانش بباید گریست)۔اب میں اس نوجوان سے کیسے دریافت کروں کے بھئی آپکی سول نا فرمانی کی اس نئی جہت کا نقصان بددیانت سیاستدانوں کی سیاست کو پہنچے گا یا پہلے سے ٹوٹتی بکھرتی ہوئی اس ریاست کو ؟ ٰیہ ٹکڑوں میں بٹی ریاست جہاں اب پنجاب کی جگہ نونستان ہے، جو سندھ کہلاتا تھا اب زردارستان ہے، خیبر پختونخواہ خانستان،کراچی مہاجرستان اور جو بیچارہ بے گھر ہے اس کے حصے میں غریبستان یا پھر قبرستان ہے۔بلوچستان کی تو بات ہی نہ کیجئے، خورشید شاہ صاحب کی نئی اصطلاح کنٹینرستان کی بات کر لیجئے۔ یقیناًکیلے کے چھلکے سے سول نا فرمانی شروع کرنے والے وہ بھائی صاحب میرا سوال سنتے تو فی ا لبدیع تقریر کی صورت میں مجھے ا پنی دانست کے مطابق بہترین جواب سے نوازتے۔ ایک وہی کیا ، انقلاب، آزادی اور جمہوریت کے متوالے، سب ہی مقرر بنے بیٹھے ہیں، ہر کوئی اپنے اپنے فہم و ادراک کے مطابق تجزیئے اور تبصرے پیش کر کے اپنے تئیں دانشور بنا ہوا ہے۔کوئی ہوا میں تیر چلا رہا ہے تو کوئی ہوائی قلعے تعمیر کر رہا ہے۔کوئی انقلاب لا کر اسلامی ریاست بچا رہا ہے کوئی نیا پاکستان بنا رہا ہے تو کوئی جمہوریت کے نام پر رچائے گئے کھیل کو تحفظ دینے کے گُن گا رہا ہے۔میں تو کچھ سمجھ نہیں پا رہی اور نہ میری اتنی اوقات ہے کہ جان پاؤں یہ ڈرامے کھیل تماشے کس لئے رچائے جا رہے ہیں اور انکا انجام کیا ہونے جا رہا ہے۔ میں نہیں جان پا رہی کہ پہلے ہماری ایجینسیوں، پھر فوج اور اب رینجرز کو عوام کی نظر میں گرانے کی نا کام کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں۔ میرے لئے یہ بھی نا قابل فہم ہے کہ عمران خان صاحب محٖض کسی ضد میں آ کر اپنا پورا سیاسی کیرئیر اتنی آسانی سے داؤ پر لگا سکتے ہیں، یہ بھی سمجھ سے با لا تر ہے کہ قادری صاحب جیسا عالمِ دین اور دانشور بھی بغیر کسی ٹھوس امید کے ٹکے ٹکے کو لوگوں سے اپنا مذاق بنوائے ۔ حکومت کی ہٹ دھرمی اور بدیانتی کے بارے میں تو کسی تجزئے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ تو ہم قبول کر چکے ہیں کہ جو بھی آئیگا ایسا ہی آئیگا ۔ سچ تو یہ ہے کہ پچھلے ایک مہینے سے میری سوچ کٹی پتنگ کی طرح کبھی ادھر کچھی ادھر بھٹک رہی ہے جس کی تقریر سنتی ہوں لگتا ہے یہی سچا ہے۔۔شائد یہ سارے ہی نام نہاد رہنما اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے منصوبے کے مطابق سچے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو سچا ثابت کرنے کے لئے ہم جیسے جھوٹے ہی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔لیکن ہم بھی کیا کریں ان بڑے بڑوں کی کھینچا تانیوں کیوجہ سے ہم سب کی سوچیں ہوا میں اُڑتی کٹی پتنگوں کی مانند ہو گئی ہیں، جس کے ہاتھ میں ڈور آتی ہے وہ کھینچتا ہے اور ہم اسکے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ہم اُڑان توخوب بھرتے ہیں مگر آزاد نہیں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں