اس وقت جب کہ ملک پاکستان میں معاشی بحران‘ سیاسی عدم استحکام اور مہنگائی کا طوفان آ یا ہوا ہے اس میں سرمایہ دار طبقے کے علاوہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ جو ہر نئی صبح ہر نئی شام مسائل کے دلدل میں پھنستے ہی چلے جا رہے ہیں کیا خبر کتنے لوگ بھوکے سو رہے ہوں گے کیا خبر کتنے ایسے لوگ ہوں گے جنکے گھروں میں ایک وقت کی روٹی میسر ہوتی ہے تو دوسرے وقت کی نہیں بھوکے سو جاتے ہیں ایسے ہی حالات میں کوٹلی ستیاں جہاں کے لوگ پہلے سے ہی غربت کا شکار ہیں اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے وہی سرکاری اداروں‘ انتظامیہ اور بالخصوص ریاست جس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے عوام کو بنیادی سہولیات میسر کر نا یہاں کو ٹلی ستیاں کے جس بھی ادارے کو دیکھیں وہاں مسائل نہیں مسائلستان ہیں جس کے اثرات ڈائریکٹ عوام پر پڑتے ہیں بجلی صارفین کو زائد بجلی بلوں، بجلی بلوں کی ترسیل‘ مختلف مقامات پر بجلی کے پول جو کہ عوام کو موت کی دعوت دے رہے انکی علاقہ عوام کیطرف سے ایکسیئن واپڈا ایس ڈی او واپڈا کی کھلی کچہریوں میں آگاہ کرنے کے با وجود کسی کو ٹس سے مس تک نہیں معمولی فالٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے واپڈا اہلکاروں کے عام آ دمی کے نخرے سر پر اٹھانا پڑتے جس پر واپڈا افسران کی چشم پوشی معنی خیز ہے جبکہ دوسری جانب صحت کی سہولیات کی فراہمی جو کہ جو کہ عوم علاقہ کو فراہم کرنا حکومت اور محکمہ صحت کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ تحصیل کوٹلی ستیاں کے بنیادی مراکز صحت اور ڈسپنسریوں میں ڈاکٹر موجود ہی نہیں ان ہسپتالوں کو نائب قاصدوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال میں ایکسرے اور آ پریشن کی سہولت بھی اس وقت مریضوں سے چھین لی گئی مریض کو پنڈی ریفر کرنے والا فارمولا ایک مرتبہ پھر سے شروع ہو چکا ہے لوگوں کو میڈیکل رپورٹس کے لیے ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے ہسپتال میں مریضوں کو سہولیات پہنچانے اور وگوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے یہاں سیاسی عمل دخل آ ے روز زور ہی پکڑتا جا رہا ہے جبکہ محکمہ ریونیو میں عوام علاقہ کے ذلت و رسوائی نہ کبھی بدلی نہ بدلنے کا نام لے رہی ہے کو ٹلی ستیاں کے اسسٹنٹ کمشنر کے آ ئے روز تبادلے بھی اس نظام کو ٹھیک کرنے میں جہاں بڑی رکاوٹ ہیں وہی ڈی سی راولپنڈی اور کمشنر راولپنڈی ڈویژن کی آ نکھوں سے اوجھل یہ تحصیل جہاں کے مسائل انہیں کم ہی نظر آتے ہیں اور نہ ہی یہاں کا وزٹ کرنا گوارہ سمجھا جا تا ہے متعدد بار ان مسائل کی نشاندھی کھلی کچہریوں اور میڈیا کے ذریعے یا پھر منتخب نمائندوں کو آگاہ کرنے کے باوجود کہ تحصیل کوٹلی ستیاں کے 14 پٹوار حلقوں اور 59 موضعات پر صرف 03 پٹواری تعینات ہیں اور گزشتہ کچھ سال قبل ایک اہم ایشو کیطرف توجہ مبذول کروائے جانے کے باوجود وہ معاملہ مبینہ طور دبا دیا گیا جس میں ہماری تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آ ئی تھی کہ دو پٹواری جو تنخواہ کوٹلی ستیاں سے لیتے ہیں مگر کام راولپنڈی میں کرتے ہیں اس پر سابقہ اسسٹنٹ کمشنر کوٹلی ستیاں ظفر حسن نقوی اور سابقہ ڈی سی او راولپنڈی کیپٹن انوار الحق جو کہ ہر پندرہ دنوں بعد یہاں کو ٹلی ستیاں میں کھلی کچہری کا انعقاد کر کے عوامی مسائل سنتے تھے ان کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا کر رکھ دیا گیا اور تا حال وہی پٹواری کمشنر و ڈی سی او سے طاقتور ہیں یا پھر وہ بھی مبینہ طور پر ان سے حصہ وصول کرتے ہوں گے یہ ایک سوالیہ نشان ہے پٹوار حلقوں میں پٹواریوں کی تعینانی نہ ہونے سے لوگوں کو ایک ایک فرد کے حصول اور اپنی ذاتی اراضی کے وراثت انتقال سمیت ریکارڈ کی درستگی کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑٹا ہے وہ یہاں کے عوام کی دن بھریہاں ذلت و رسوائی سے ہی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ہر دور حکومت میں ان مسائل کی نشاندھی منتخب نمائندوں اور اعلی افسران کو کئی مرتبہ کی گئی مگر وقتی بیان بازی یا جلد ان مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی گئی مگر اب تک ان مسائل کا حل نہ ہونا منتخب نمائندوں اور کمشنر راولپنڈی ڈویژن، ڈی سی او راولپنڈی کی کوٹلی ستیاں کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی پر ایک سوالیہ نشان ہے؟
158