صبور ملک ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
ایم سی کلرسیداں کو بالآخر ہوش آہی گیا ،کلرشہر میں برسات کی بارش کے بعد اُگ آنے والی خودروجھاڑیوں کی طرح وجود میں آنے والی تجاوزات کے خاتمے کے لئے ایک آپریشن گزشتہ سوموار کو ہو ا،چیف آفیسر ایم سی کلر سیداں محمد خالد رشید کمبوہ نے ایم او آر کاشف عدنان کیانی،انکروچمنٹ انسپکڑز زاہد حسین حیدری،ملک سراج الطاف اور ایم سی کے عملے کے ہمراہ آپریشن کلین اپ کیا ،آپریشن ناجائز تجااوزات کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی شکایات پر کیا گیا،جس میں کلرسیداں ٹریفک پولیس کے انچارج عمران نواب خان اور ان کے عملے نے بھی چیف آفیسر کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ،آپریشن ٹی ایچ کیو کلرسیداں کے سامنے سے شروع ہوا اور چوآروڈ نالہ کانسی کے پل تک پنڈی کلراور کلرچوآروڈ کے اطراف میں کیا گیا،اس دروان سڑک کے دونوں جانب موجود فٹ پاتھ اور ہائی وے کی جگہ پر بنائی گئی ناجائز تجاوزات کو گرا دیا گیا اور دکاندار کی جانب سے فٹ پاتھ اور سڑک پر رکھے گئے سامان کو بحق سرکار ضبط کر لیاگیا۔لیکن ہوا وہی جو عموماً اس قسم کے آپریشن میں ہوتا ہے،یعنی گونگلوں سے مٹی جھاڑ دی گئی،آپریشن کا سارا نزلہ غریب دکان داروں اور ریڑھی بانوں پر پڑا،آپریشن صرف کلرپنڈی اور کلرچوآخالصہ روڈ کے اطراف میں کیا گیا ،اور اس میں بھی میں چوک کلرسیداں سے نالہ کانسی پل تک صرف سڑک کے ایک طرف ہی موجود چند دکان داروں کو وارننگ اور چند ایک کا سامان اُٹھا کر ضبط کیا گیا،مین بازار ،مغل بازار،گجر خان روڈ،مرید چوک ،دربیرن روڈ او راندرون شہر موجود نیلم بازار گویا کلرسیداں ایم سی کی حددو میں نہیں آتا اسی لئے ایم سی کے سی او اور انکروچمنٹ انسپکٹرز کی نگاہ کبھی اس جانب نہیں گئی، جو کہ مبینہ طور پر کسی بھتہ خوری یا ڈیل کا نتیجہ ہے ۔کیونکہ ماضی میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جب بھتہ نہ دینے والے کی ریڑھی ضبط اور مٹھی گرم کرنے والے سے چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے،اس حوالے سے ہمارے ذرائع ایم سی کے انکروچمنٹ انسپکٹرز کے ستائے ریڑھی بان حتی کے پیدل چل پھر کر سامان فروخت کرنے والے بھی ناجانے تجاوزات کے کون سے قانون کی خلاف ورزی کربیٹھے جو ان سے رقم بٹوری گئی،کلرپنڈی روڈ اور کلر چوآروڈ پرکے اطراف موجود چھوٹے دکان داروں کا کہنا یہ ہے کہ اگر روات سے چوک پنڈوڑی تک دونوں اطراف سڑک بناتے وقت دکانوں کو توڑکر سڑک کو دوطرفہ اور کشادہ کیا گیا تو کلرسیداں میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں،جو یہاں ایسا نہیں ہوا ،اگر ایک ہی بار اس شاہراہ کو کشادہ کردیا جائے تو ہم روز روز کی اس مصیبت سے چھٹکارا پاسکتے ہیں،محض بڑے اور اپنے چہیتے تاجروں کے دکانوں اور شاپنگ پلازوں کو بچانے کے لئے کلرسیداں شہر میں مستقل طور پر ٹریفک اور تجاوزات کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا ،جس کا خمیازہ آج اور مستقبل میں ہمیں اس وقت کا بھگتنا ہو گا جب تک بائی پاس سے مرید چوک تک شاہراہ کو دوطرفہ اور کشادہ نہیں کیا جاتا،رہی موجودہ تجاوزات تو کلرسیداں میں سیاسی مصلحت مقامی بلدیاتی نمائندوں کیا آشیر باد سے ایم سی تجاوزات کے خلاف کوئی موثر ،ٹھوس اور مستقل بنیادوں پر کارروئی کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہے،آپریشن کے دوران جن تاجروں کو وارننگ دی گئی کہ وہ اپنی دکان کے سامنے سے تجاوزات ہٹا دیں،انھوں نے سی او ایم سی کے احکامات کو ہوا میں اُڑا دیا،کلرسیداں کے شہریوں کوسمجھ اس بات کی نہیں آتی کہ کیا کلرسیداں کی مقامی انتظامیہ واقعتابلدیاتی نمائندوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے جو وہ شہریوں اور میڈیا کے شور مچانے پر بھی محض خانہ پری کے طور پر ایک دن کارروائی ڈال کر کاغذوں کا پیٹ بھر کر دوبارہ ستو پی کر سو گئی ہے؟
اب آتے ہیں ایک صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کے ٹی ایچ کیو کلرسیداں کے دورے پراُنھوں نے ٹی ایچ کیو کہوٹہ کو 60بستروں سے 100بستر کرنے اور مشینری بھی دینے کا اعلان کیا ،لیکن کلرسیداں ٹی ایچ کیو کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا ،جبکہ کارکردگی کے لحاظ سے ٹی ایچ کیو کلرسیداں ہمیشہ پہلے نمبر پر آتا ہے،روایت ہے کہ کسی بھی گھر کو جانے والا مہمان موقع کی مناسبت سے اپنی بساط کے مطابق اہل خانہ کے لئے کچھ نہ کچھ لے کر ہی جاتا ہے،خالی ہاتھ جانے کو ہمارے ہاں برا محسوس کیا جاتا ہے،صوبائی وزیر صحت چونکہ کلرسیداں والوں کی مہمان تھیں اور ان کا تعلق بھی خطہ پوٹھوہار سے ہے ،اور کلرسیداں والے ان سے امید رکھتے تھے کہ وہ اپنے پہلے دورے میں کچھ نہ کچھ دے کر ہی جائیں گی،لیکن سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے فرمائش کر کے ترقیاتی کام کروانے والے کلرسیداں کے لوگ یہ بھول گے کہ ہرکوئی چوہدری نثار نہیں ہوتا،صوبائی وزیر صحت نے تبدیلی سرکار کے وزراء کے لایعنی اور سمجھ سے بالاتر بیانات کے عین مطابق ٹی ایچ کیو کلرسیداں میں ایم آئی آر مشین نصب کرنے کے مطالبے پر صاف ٹھینگا دکھاتے ہوئے جواب دیا کہ تحصیل کی سطح پر اس کو کوئی جواز نہیں بنتا ،گویا بقول ڈاکٹر صاحبہ کے کسی بھی تحصیل کے رہائشیو ں کو اس بات کا قطعاً کوئی حق نہیں کہ وہ ایم آئی آر مشین سے استفادہ حاصل کریں ،یہ خود کو پروفیسر اور ڈاکٹر کہنے والی صوبائی وزیر صحت کا بیان ہے ،جو تحصیل کے سطح پر رہنے والے لوگوں کے لئے علاج معالجہ کی بہترین سہولتوں کے قابل نہیں سمجھتیں
96