شروع اللہ تبارک وتعالی کے بابرکت نام سے اور کروڑوں درودو سلام آقائے دو جہاں خاتم النبین نبی مرسلین ؐپر اور آپکی آل پر آج کے کالم کا جو نام دیا گیا ہیدراصل اس کے معنی ہیں بہتر امید امید سحر سے مراد ایک اندھیرے کے بعد سحر کی امید ہے ایک امید ھی جس کی وجہ سے انسان مشکل سے مشکل حالات سے بھی بہتر حالات کی امید پر مقابلہ کرتا ہے اسلام نے بھی ناامیدی کو کفر قرار دیا ہے
اگر امیدیں ختمہو جائیں تو کوئی ظلم کی چکی میں نہ پسے ہر مظلوم ظالم کا گریبان پکڑ لے ہر شخص اپنی محرومیوں کا ازالہ کرے اگر یہ امن قائم ہے لوگ ظلم سہہ کر بھی خاموش ہیں تو امید ہی ہے جو انہیں خاموش رکھے ہوئے کہ بہتر ہو گا یا کوئی سوچتا ہے میزان عدل میں تو رب العزت ضرور انصاف فرمائے گا آج معاشرے میں سب سے زیادہ اگر پس رہا ہے تو وہ جو سب کا پیٹ بھرنے کا باعث ہے میری مراد مظلوم کسان ہے جو نہ ہی تو حقوق کیلیے ڈنڈا یا بندوق اٹھا سکتا ہے نہ ہی باغی ہو سکتا ہے
کیونکہ ہتھیار اٹھانا اس کا شیوہ نہیں ہے اور بغاوت اس وہ کر نہیں سکتا کیونکہ وہ مٹی کو اپنی روح میں سمائے ہوئے ہیاور جو چیزیں روح میں سمائی ہوں ان سے بغاوت نہیں بلکہ محبت کی جاتی ہے اور محبت میں اس مٹی کے وقار اور حفاظت کیلئے جان دی جاتی ہے مختصراً بات یہ کہ زمین کی تیاری تقریباً مئی میں شروع ہو جاتی ہے اور مسلسل گندم کو بیجنے تک جاری رہتی ہے اور پھر گندم کی دیکھ بھال اپریل تک مسلسل جاری رہتی ہے اور تیار ہونے کے بعد کٹائی اور تھریشر کے بعد گھر لے جانے تک اس میں جو پریشانیاں اخراجات اور محنت طلب ہوتی ہے اس کا صلہ مشکل نہیں ناممکن ہے
اس کے صلہ میں اسے ریلف نامی کوئی چیز نہ دی جاے اور اسی کسان سے مطالبہ کیا جائے کہ پچھلے سال کے ریٹ سے آدھے ریٹ پر وہ گندم فروخت کرے اب سوال یہ ہے کہ اس سال میں چیزیں پچاس فی صد سستی ہوئیں ہیں جو کسان پچاس فی صد سستی گندم دے یا اسے ڈیزل بیچ ادویات بجلی پر کوئی ریلیف دیا گیا؟ اگر نہیں تو وہ کیسے گندم سستی بیچے ستم ظریفی دیکھیے وہ اس نامناسب ریٹ پر بھی گندم بیچنے کو تیار ہوا تو حکومت خریدار ہی نہ بنی وہ جس کو فصل کی تیاری پر امیدیں تھیں جس نے بچوں کو دلاسے دے رکھے تھے فصل کی تیاری کے وہ فصل پکنے پر جس کے بچے خوش تھے
انہیں کیا معلوم ان کا باپ مقروض ہو چکا ہے فطرت ہے کہ اگر ظلم ہو مظلوم یا تو رو دیتاہے یا فریاد کرتاہے اور جب حالات کی چکی مین پسنے کے بعد انہوں نے احتجاج کی کوشش کی تو نہ صرف ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں بلکہ ان کو حوالات میں بھی بند کیا گیا جو سراسر اس کی توہین ہے میاں محمد بخش صاحب رح فرماتے ہیں کہ
لِسے دا کی زور محمد
رونا یا نَس جانڑاں
ترجمہ:کمزور یا مظلوم کی کیا طاقت ہے یا رو دے گا یا بھاگ جائے گا
حالانکہ یہ سفید پوش طبقہ دلیر اور جفاکش بھی ہے اور زورآور بھی اگر یہ ایک سال بگڑ گیا تو شاید ملک میں قحط آ جائے گا بلکہ حالات بے قابو ہو جائیں گے یہ بات سائیڈ پے کریں کہ کس نے باہر سے گندم منگوائی کتنا کمیشن کمایا کون سی کمیٹی بنی کون تحقیق کرے گا یہ سب تو پچھلے پچہتر سالوں سے ہو رہا ہے کبھی کوئی اصلی مجرم انجام تک نہیں پہنچا سوال یہ ہے کہ اگر کسان گندم کے متبادل فصل اگانے لگ جائے جن پر اس کی لاگت کم اور فائدہ زیادہ ہے مثلاً سرسوں تارا میرا چنے مسور تو زیادہ دور نہیں گزشتہ دسمبر کا حالہیدیکھ لیں کہ لوگوں کو آٹا لینے کے لیے کس قدر مشکلات دیکھنی پڑی
اور کتنے لوگ اسی کھینچا تانی میں مرے ہیں ہم نے کبھی کسی چیز سے سبق نہیں سیکھا جس کی وجہ سے دن بدن ہم مشکلات مین گھرے جا رہے ہیں اور ادھر ہمارا پڑوسی اور دشمن ملک اپنے کسان کو زرعی آلات ٹریکٹر بیچ پر سبسڈی دے رہا ہے اور ساتھ ساتھ جانور سنبھالنے کے لیے افراد بھی فراہم کر رہا ہے اور اس کا خرچ حکومت اٹھا رہی ہے بعض عوامی منتحب اراکین اسمبلی راجہ شوکت عزیز صاحب اور خالد اعجاز رانجھا صاحب اور شیخ وقاص اکرم نے کسان کے حق میں آواز اٹھائی ھے
جو قابل تحسین ہے اور حکومت کو چاہی کے عوام سے جڑے لوگوں کو کابینہ میں جگہ دی جائے اور یا ان کو قریب لایا جاے کیونکہ وہ عوام کے قریب ہیں اور ان کی تکالیف کو سمجھتے ہیں اورجو لوگ عوام کی پریشانیوں سے آگاہ ہوں وہی ان کا بہتر حل نکال سکتے ہیں یا ان لوگوں سے مشاوت کر کے ان سے فائدہ اٹھائیں تاکہ عوام کو ریلیف ملے اور آخر میں سلام ہے اس کسان کو ان مشکل حالات میں بھی اس ملک و قوم کا نہ صرف ہمدردہے بلکہ دل و جان سے وفادار بھی ہے
ان حالات میں بھی ملک سے مخلص ہے اور یہاں اپنی زندگی کو رواں دواں کیے ہوئیہے جب بڑے بزنس میں صنعت کار اوراعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے