جواد اصغر شاد/غوث اعظم روڈ‘ چکری روڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بسکٹ فیکٹری چوک دھمیال سے شروع ہو کر ظفر پلازہ‘ بنی سٹاپ‘ موہڑہ چھپر‘شاہ کاف پُل‘ حیال‘ رنیال‘کوہالہ‘ ڈھوک چٹھہ‘ڈھوک راجگان‘ میرہ‘ چہان‘سہال سمیت متعدد دیہاتوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیز سے ہوتی ہوئی چکری انٹرچینج پر موٹروے سے ملتی ہے۔ مجوزہ رنگ روڈ کا انٹرچینج بھی چکری روڈ پر بنے گا کیونکہ یہ روڈ پنڈی کے ایک بڑے حصے کو نہ صرف M-2‘M-1 سے ملاتی ہے بلکہ رنگ روڈ کی تعمیر کی صورت میں یہ اسکا اہم ترین حصہ ہو گی۔ حیال سے لے کر بسکٹ فیکٹری چوک تک ٹریفک بلاک رہنا معمول بن چکا ہے‘ علاقہ کی سماجی شخصیات راجہ عمران‘راجہ عمیر‘ملک عامر اور ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ سڑک پر گنجائش ہونے کے باوجود اسے ڈیوائڈر لگا کر دو رویہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر ایسا کر دیا جائے تو سڑک پر ہونے والے حادثات میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔اس سلسلے میں پنڈی پوسٹ نے فیصلہ کیا کہ ان لوگوں کی رائے لی جائے جو باقاعدگی سے چکری روڈ پر سفر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے ان لوگوں سے بات کی گئی جو علم کے حصول کے لئے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ فرسٹ ایئر کے طالبعلم فیصل عرفان‘شعیب نذیر‘امجد مغل نے ہمیں بتایا کہ گھر سے ٹائم پر نکلنے کے باوجود وہ کوشش اور خواہش کے باوجود اپنے کالج ٹائم پر نہیں پہنچ پاتے‘نویں کلاس کے ناصر خان کو شکایت تھی کہ میرا بھی یہی مسئلہ ہے‘تیس منٹ پہلے گھر سے نکلتا ہوں اور بڑی مشکل سے ٹائم پر سکول پہنچتا ہوں‘ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے کئی دفعہ جرمانہ بھی ادا کر چکا ہوں۔ سرکاری ملازم ملک رمضان جو اسلام آباد میں ڈیوٹی کرتے ہیں نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ذاتی گاڑی پر دفتر جاتے تھے لیکن اب ٹریفک جام کی وجہ سے موٹر سائیکل پر جانا پڑتا ہے تاکہ ٹائم پر دفتر پہنچ جائیں۔ پنڈی پوسٹ کے نمائندہ نے سکول وین ڈرائیور سے بھی استفسار کیا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک جام کی وجہ سے نہ صرف ٹائم کا زیاں ہوتا ہے بلکہ فیول کی مد میں اضافی بوجھ بھی سہنا پڑتا ہے جو انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کے والدین پر ڈالنا پڑتا ہے۔ جب شہریوں سے ٹریفک جام کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی تو دو آراء ہمارے سامنے آئیں‘ایک وہ لوگ ہیں جنہیں شاہ کاف پُل کراس نہیں کرنا پڑتا اور ان کے خیال میں ٹریفک جام کی بڑی وجہ تجاوزات ہیں جو جگہ جگہ ہر پلازہ اور ہر دکان کے باہر سبزی فروٹ گوشت اور مختلف قسم کے غیر قانونی سٹالز کی صورت میں نظر آتے ہیں حالانکہ ابھی حال ہی میں اسی سلسلے میں حلقہ سے ایم پی اے واثق قیوم نے اسسٹنٹ کمشنر صدر سرکل قاضی منصور بلوچ اور فوکل پرسن ٹائیگر فورس صدر سرکل ٹیم راجہ عثمان کے ہمراہ اپنے دورے میں پلازہ اور مارکیٹ مالکان کو سختی سے یہ سب کچھ ہٹانے کا کہا تھا‘ مگر تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ واثق قیوم کے اس دورے سے بھی چکری روڈ پر سفر کرنے والے کچھ زیادہ پرامید نہیں کہ اس سے کوئی بہتری آئے گی۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا گُزر شاہ کاف پُل سے ہوتا ہے‘ یہ پُل عرصہ دراز سے بدترین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور بہت سے حادثات کا سبب بن چکا ہے‘اسے دو ماہ پہلے ارسر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس پر کام بھی شروع ہے مگر خاطر خواہ پلاننگ کے فقدان اور متبادل راستہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بات پر بھی سبھی متفق ہیں کہ پُل پر تعمیراتی کام کی رفتار حد درجہ غیر تسلی بخش ہے۔ٹریفک کے نظام میں بہتری کیلئے ٹریفک وارڈز بھی موجود رہتے ہیں مگروہ سخت محنت کے باوجود ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول نہیں کر پاتے۔ تجاوزات اس قدر زیادہ ہیں کہ فٹ پاتھوں پر تِل دھرنے کی جگہ نہیں‘ بنی سٹاپ کے قریب نالے کو بند ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہے اور نالے کا گندہ پانی سڑک سے گزرنے والے تمام افراد کے کپڑے ناپاک کرتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالیوں کی بھرمار بھی آلودگی میں اضافہ اور ٹریفک کی روانی میں خلل کا باعث بنتی ہے۔ حرف آخر کے طور پر یہی کہاجا سکتا ہے کہ چکری روڈ پر تجاوزات اور ٹریفک جام کے مسئلے اور شاہ کاف پُل کی تعمیر نو کو لے کر شہری عدم اطمینان کا شکار ہیں‘ مسائل کے حل کے وعدے پر ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے منتخب نمائندگان کو بھی عوامی مسائل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں‘امید ہے کہ انتظامیہ چکری روڈ کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کی زحمت گوارا کرے گی۔
226