152

چوہدری وسیم کا انسانیت دوست کارنامہ

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

کیا یہ احساس ایک اذیت اور عذاب سے کم نہیں کہ ہم گذر رہے ہیں اور ہم گزر جائیں گے۔یہ کیسی حسرت ناک رائیگانی ہے اس رائیگانی کی اذیت اور عذاب کی تلخی کو کم کرنے کے لیے کچھ انسانوں نے اپنے وجود کی نئی جہت تلاش کی ہے اپنے وجود اور اپنے وجود سے باہر۔یہ معنیٰ کی جہت ہے مہمل میں مفہوم کی دریافت۔کیا دریافت؟ یہی کہ اگر تمام انسان ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں اور ان کے دل ایک ساتھ دھڑک رہے ہوں تو کیا ہمارے مصائب ختم نہیں ہوجائیں گے۔اگر وجود میں معنیٰ اور مفہوم ناپید ہوں تو پھر سماج مسائل و مصائب کا ہی شکار رہتا ہے سو معنیٰ اور مفہوم کی تلاش ہی میں نجات ہے ایسے وقت جب ہر سو انسانیت دکھی دیکھائی دیتی ہے وقت انسان کو پاگل کررہا ہے۔آج کا وقت سب سے بڑا آشوب ہے سب سے بڑی آشوب ناکی ہے۔فرد کی زندگی یا گروہوں برادریوں کی۔زندگی سب آس وقت آشوب کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں۔اسے وقت میں موجود ہونا ضروری ہے میرا مطلب ہے کہ دم بہ دم گذرتے رہنے کے دوران اپنے وجود کے معنیٰ تلاش کرنا۔اس وحشت ناک واذیت ناک۔وقت میں بہت کم انسان ہیں جو اپنے وجود کو بامعنیٰ بنائے ہوئے ہیں جو بے مثال جذبے کے تحت اپنے وجود کو معنیٰ دیتے ہوئے اخوت اور برادر نوازی کا عملی نمونہ پیش کررہے ہیں

اسے لوگ جو اپنی وجود کو انسانی جذبوں کو دلوں کے گہرے رشتوں میں پرو کر ایک بے مثال معاشرے کی صورت گری کررہی ہیں اعلیٰ ظرفی ہر ایک کا چلن نہیں ہوسکتی لیکن جس کے اخلاق میں شامل ہوجائے اسے انسانیت کی معراج پر پہنچا دیتی ہے۔ میری تحریر کی یہ پیش بندی اس شخصیت بارے ہے جس نے اپنے وجود کو بامعنیٰ بنایا اور ان معنوں کو سمجھ کر معاشرے مین جا بجا پھیلی دکھ کی داستانوں کو بغور دیکھا۔سمجھا اور ان دکھوں کو اپنا دکھ جان کر ان دکھی اور مجبور خاندانوں کے مصائب ختم کرنے کے لیے بے دریخ خرچ کیا۔چوہدری وسیم بیول کا وہ لائق فرزند ہے جسکی کامیاب زندگی اس کی شب روز محنت کا ثمر ہے چوہدری وسیم نے فرانس میں ایک بڑی کاروباری شخصیت کے طور جانے جاتے ہیں آج وہ جس مقام پر ہیں اس کے لیے انہوں نے ایک طویل جہدوجہد کی۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ اپنے والدین کی دعاؤں کے نتیجے یہاں تک پہنچے اور انہیں کی نصیحت اور تربیت کے تحت وہ یہاں فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔چوہدری وسیم کی جانب سے حال میں غریب گھرانے کے ایک ایسے بچے کا آپریشن کروایا جو پیدائشی طور رفع حاجت کی قدرتی جگہ سے محروم تھا۔پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی اس بچے کی اس معذروی کا علم ہوا والدین نے قرض لے کر ابتدائی آپریشن کروایا جس میں بچے کی آنت جسم سے باہر نکال کر پیشاب کرنے عارضی سہولت مہیا کی۔آج اس بچے عثمان کی عمربارہ برس ہے والد کی غربت آڑے آتی رہی اور بچہ بارہ برس کی عمر میں بھی جسم سے باہر نکلی اس نس کے ذریعے ہی اپنا معاملہ چلاتا رہا اس گھرانے کی اس مشکل بارے آگاہی ملنے پر چوہدری وسیم نے عثمان کے والد سے رابطہ کرکے اس آپریشن کا بیڑا اُٹھایا اور بڑی راز داری سے یہ کام شروع کیا بچے کو ایم ایچ اسپتال راولپنڈی ایڈمنٹ کروایا گیا جہاں بچے کا آپریشن کرکے رفع حاجت کے لیے جگہ بنائی گئی۔

چند ماہ بعد دوسرے آپریشن میں اس جگہ کو مزید کھولا گیا۔اس دوران چوہدری وسیم نے اس گھرانے کی مالی مدد جاری رکھی تاکہ وہ بچے کی میڈیسن کے ساتھ ساتھ اس کی بہتر خوراک کا خیال رکھ سکیں۔اب سے کچھ روز قبل عثمان کا چوتھا آپریشن کیا گیا جس میں جسم سے نکالی جانے والی نس کو رفع حاجت کے لیے بنائی جانے والی جگہ سے جوڑا گیا تادم تحریر بچہ اسپتال میں ایڈمنٹ ہے۔اس آپریشن پر اس وقت تک دس لاکھ سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے اسپتال کے اخراجات‘ میڈیسن اور آنے جانے کے لیے پرائیویٹ کاروں کے اخراجات اور اسپتال میں رہ کر کھانے پینے کے تمام اخراجات چوہدری وسیم کی جانب سے کیے گئے۔ بچے کوگھر لانے کے بعد دو سے تین ماہ تک میڈیسن کا جاری رکھنا ضروری ہے جس پر مزید رقم بھی خرچ ہوگی اس پرفتن دور میں جہاں ہوس زر کے مارے لوگ دوسروں کا مال ومتاع لوٹنے میں مصروف ہوں وہاں چوہدری وسیم جیسی شخصیت رب کائنات کا ایک نایاب تحفہ ہی قرار دی جاسکتی چوہدری وسیم آجکل اپنی والدہ کی بیماری کے حوالے سے پاکستان میں موجود ہیں اشتیاق ہے کہ سندھ واپسی سے پہلے ان سے ایک ملاقات ہوجائے اور ان کی جذبے ان کی سخاوت اور انسان دوستی کو خراج تحسین پیش کرسکوں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں