الیکشن کا طبل بج چکا ہے تمام جماعتوں کے امیدوار اپنی جیت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں ووٹرز کی رہنمائی کے لیے ہم سلسلہ شروع کر رہے کہ وہ جان سکیں جو امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہا وہ کون اسکی مکمل بائیو گرافی لکھیں گے تاکہ ووٹر کو اپنا نمائندہ چننے آسانی ہو آج کی تحریر میں بات کرینگے حلقہ این اے53 اور این اے54کے امیدوار چوہدری نثار علی خان کی اور جانیں گے انکی شخصیت کے مختلف پہلووں کے بارے میں اگر ہم خطہ پوٹھوہار کی سیاست کی ہم بات کریں تو اس میں چند ایسی سیاسی شخصیات ہماری سیاست کا حصہ رہی ہیں یا تاحال ہیں جنکے بغیر پوٹھوہار کا سیاسی منظر نامہ مکمل نہیں ہوتا ان سیاسی شخصیات نے سیاست میں اپنا لوہا منوایا اور ایک منفرد و نمایاں مقام حاصل کیا ہے ان شخصیات میں سے ایک شخصیت کا نام چوہدری نثار علی خان کا ہے جنھوں نے پاکستانی سیاست میں اپنا بڑا نام اور مقام بنایا چوہدری نثار علی خان کے دادا کا نام چوہدری سلطان تھا جو فوج میں تھے بتایا جاتا ہے کہ انکے دادا برٹش فوج کی طرف سے ہٹلر کے خلاف لڑنے گئے اور راستے میں عراق کے کسی مقام پر جاں بحق ہوئے انکا جسد خاکی بھی واپس نہیں آیا انکے دو بیٹے تھے چوہدری تاج محمد خان اور چوہدری فتح خان جس میں چوہدری تاج محمد خان چکری میں ڈیرہ سنبھالتے اور سیاسی اثر و رسوخ رکھتے تھے جبکہ چوہدری فتح خان فوج میں برگیڈیئر کے عہدے تک گئے اور ریٹائر ہوئے وہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل کمیشن لے کر آئے تھے انکے بارے میں کہاں جاتا ہے کہ وہ ایوب خان کے بڑے قریب تھے وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ان ہی کے دور حکومت میں سیاست میں آئے اور صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے چوہدری نثار علی خان 31جولائی 1954 کو چکری گاؤں تھانہ چونترہ راولپنڈی برگیڈیئر فتح خان کے گھر پیدا ہوئے چوہدری نثار علی خان کی چار بہنیں اور ایک بھائی جنرل (ر) افتخار علی خان ہیں جنکا انکی سیاست میں اہم کردار رہا ہے چوہدری نثار علی خان نے اپنی تعلیم لاہور کے ایک مشہور تعلیمی ادارے ایچیسن کالج اور آرمی برہن کالج سے حاصل کی انکو عملی طور پر سیاست میں انکے والد صاحب نے متعارف کروایا تب جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور انھوں نے1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد ضیاء الحق کی مجلس شوری کے رکن بنے اور اس طرح وہ جنرل ضیاء الحق کی نظر میں بھی آگئے یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف پنجاب میں اپنے عروج پر تھے اور دن بدن انکی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی ایسے میں میاں نواز شریف کو ایسا دست راست چاہئیے تھا
جو جی ایچ کیو یعنی آرمی کی سوچ سے آشنائی رکھتا ہو اس لیے یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے قربتیں بڑھتی گئی شروع میں تو میاں شہباز شریف کے ساتھ چوہدری نثار علی خان کی نہیں بنتی تھی مگر بعد میں دونوں کی آپس میں ایسی دوستی ہوئی جو آج تک برقرار ہے چوہدری نثار علی خان 1988کے عام انتخابات میں دوسری مرتبہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس دوران وہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے طور پر مختصر عرصے کے لیے رہے اس کے بعد وہ 1990کے عام انتخابات میں تیسری مرتبہ اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر الیکشن میں کامیاب ہوئے اس دوران نواز شریف کی پہلی کابینہ میں 1990 سے1993 تک بطور وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل رہے اسکے بعد 1993کے عام انتخابات میں چوتھی مرتبہ وہ الیکشن لڑے اور قومی اسمبلی کے ممبر کے طور پر منتخب ہوئے اور اپوزیشن میں رہے اسکے بعد1997 میں عام انتخابات ہوئے تو چوہدری نثار علی خان پانچویں دفعہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس دوران جب میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو یہ دوسری مرتبہ وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل بنے اس دوران1999میں جب نواز شریف کی حکومت کو جنرل پرویز مشرف نے ختم کیا اور وہ قید اور اسکے بعد بیرون ملک جلا وطن ہوگئے تو انھوں نے پیچھے پارٹی کو سنبھالا دیے رکھا اس وقت جب میاں نواز شریف قید میں تھے تو جنرل پرویز مشرف چوہدری نثار علی خان سے براہ راست ملنے کے خواہشمند رہے مگر وہ ان سے نہ ملے کیونکہ وہ نواز شریف کو دھوکہ نہیں دینا چاہتے تھے رہائی کے بعد جب پارٹی کی جانب سے سرد مہری دکھائی گئی تو اس وقت بھی پرویز مشرف انکو اسپیکر اور بعد ازاں ق لیگ کا صدر بنانے کے خواہشمند رہے اور ان تک پیغام پہنچایا مگر وہ اس کے لیے راضی نہ ہوئے بلکہ اپوزیشن میں رہ کر ایک آمر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور2002 میں قومی اسمبلی کے چھٹی دفعہ ممبر منتخب ہوئے اس دفعہ انھوں نے دو حلقوں سے الیکشن لڑا رہا تھا
ایک حلقے میں انکو شکست کا سامنا کرنا پڑا اپوزیشن میں ایک لمبا عرصہ کاٹنے کے بعد چوہدری نثار علی خان نے 2008کے عام انتخابات میں دو سیٹوں پر الیکشن لڑا ایک حلقہ این اے 52 راولپنڈی جبکہ دوسرا این اے 53راولپنڈی ٹیکسلا تو وہ ان عام انتخابات میں ساتویں دفعہ قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے اور ممبر قومی اسمبلی بنے بعد میں انھوں نے حلقہ این اے 52سے استعفیٰ دے دیا اور یہاں سے ضمنی انتخابات کے دوران مسلم لیگ ن کے کیپٹن (ر) صفدر منتخب ہوئے چوہدری نثار علی خان2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے ایگریکلچر و لائف سٹاک رہے مگر اس وزرات پر وہ مختصر عرصے کے لیے رہے کیونکہ مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدگی کر کے اپوزیشن میں آگئی تھی تو اس دوران چوہدری نثار علی خان ستمبر 2008میں چوہدری پرویز الہی کے استعفیٰ کے بعد قائد حزب اختلاف بنے اور بطور اپوزیشن لیڈر ڈٹ کر حکومت کا مقابلہ کیا اور اس دوران 2011میں وہ پہلے ممبر نیشنل اسمبلی تھے جو چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی منتخب ہوئے2013 کے عام انتخابات میں دوبارہ انھوں نے الیکشن دونوں قومی اسمبلی کے حلقوں سے لڑا اس دفعہ وہ صرف این اے 52 سے کامیاب ہوئے اور بطور ممبر نیشنل اسمبلی آٹھویں دفعہ منتخب ہوئے2013 کے عام انتخابات میں وہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑے جو جیتنے میں کامیاب ہوئے مگر انھوں نے بطور ممبر نیشنل اسمبلی حلف اٹھایا تو انکو یہ صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنی پڑی اس دوران جب میاں نواز شریف تیسری دفعہ اس ملک کے وزیراعظم بنے تو چوہدری نثار علی خان انکی کابینہ میں وفاقی وزیر داخلہ بنے وہ واحد وزیر داخلہ پاکستان کی تاریخ میں رہے ہیں
کہ جب یہ پریس کانفرنس کرتے تھے تو چاہے وہ دو گھنٹے کی پریس کانفرنس ہو میڈیا انکو دکھاتا تھا اور وہ واحد سیاست دان تھے کہ جب وہ پریس کانفرنس کرنے آتے تھے تو کمرے میں داخل ہونے سے لے کر انکے جانے تک سب میڈیا کور کرتا تھا انھوں نے بطور وفاقی وزیر داخلہ بہت احسن اقدام کیے جنکی وجہ سے پارٹی کے اندر بھی انکی مخالفت رہی مگر وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے2017میں جب میاں نواز شریف کے پانامہ پیپرز کے بعد مستعفی ہوئے تو انکے پارٹی سے اختلافات بھی شروع ہوگئے جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو اس دروان چوہدری نثار علی خان کو متعدد دفعہ بولا گیا کہ وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر آجائیں مگر انھوں نے انکار کر دیا اور اس طرح مسلم لیگ ن سے انکی راہیں آہستہ آہستہ جدا ہونا شروع ہوئی فروری 2018میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انکو اپنی جماعت میں آنے کی دعوت دی مگر انھوں نے انکار کر دیا چوہدری نثار علی خان کو متعدد دفعہ وہ اوپن فورم پر اور اندرونی طور پر بھی پیغام بھیجتے رہے کہ وہ تحریک انصاف کو جوائن کریں مگر وہ بضد رہے کہ انھوں نے شمولیت اختیار نہیں کرنی کیونکہ انکو کئی نہ کئی یقین تھا کہ جس جماعت کو انھوں نے اپنی زندگی کے35سال دیے وہ انکو تنہا نہیں چھوڑے گی بلکہ2018 کے عام انتخابات میں انکو ٹکٹ دے گی مگر پارٹی نے انکو ٹکٹ نہیں دیا بلکہ انکی جگہ اپنی جماعت کے انجینئر قمر اسلام راجہ کو انکے مقابلے میں ٹکٹ دیا اس دوران چوہدری نثار علی خان نے چار حلقوں میں سے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑا جن میں دو قومی اسمبلی جبکہ دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں تھی یہ وہ واحد حلقہ تھا جس پر پورے پاکستان کی نظریں لگی ہوئی تھی اور بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ چوہدری نثار علی خان یہاں سے جیت جائے گے مگر پارٹی کے اختلافات کے سبب جب دو امیدوار ایک ہی جماعت کے آجائیں تو اسکا فائدہ تیسرا فریق اٹھاتا اور وہی ہوا یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے غلام سرور خان الیکشن میں کامیاب ہوئے اور چوہدری نثار علی خان اس طرح نویں دفعہ لگاتار اسمبلی میں نہیں جاسکے مگر وہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے جس کا حلف انھوں نے2021 میں تین سال بعد اٹھایا اب آنے والے انتخابات میں چوہدری نثار علی خان تین حلقوں سے جن میں دو قومی این اے53اور54اور ایک صوبائی حلقہ پی پی دس سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں
انھوں نے اپنی الیکشن کمپین کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور عوامی رابطہ مہم تیز کر دی ہے چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے ہے کہ وہ موبائل فون بہت کم استعمال کرتے ہیں انکا فون نمبر بہت کم لوگوں کے پاس ہے یہاں تک کے اراکین اسمبلی کے پاس بھی انکا نمبر نہیں ہے وہ آج کے دور میں بھی اپنے ووٹرز کے خط کا جواب دیتے اور انکے خطوط پڑھتے ہیں اور ان پر احکامات بھی جاری کرتے ہیں اخبار پڑھنا انکا بہترین مشغلہ ہے جسکو وہ کبھی نہیں بھولتے چوہدری نثار علی خان ہر کسی کو دستیاب بھی نہیں ہوتے جب وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر رہے تب بھی بہت کم لوگوں کی ان تک رسائی ہوتی تھی انکی اہلیہ سکول ٹیچر بھی رہی ہیں انکا ایک بیٹا جبکہ 3بیٹیاں ہیں چوہدری نثار علی خان کا سیاسی مستقبل انکے اکلوتے بیٹے چوہدری تیمور علی خان سے وابستہ ہے جو آج کل انکے ساتھ مختلف حلقوں اور میٹنگز میں نظر آتے ہیں اسکے علاوہ انھوں نے ہی اپنے والد کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں!!