125

چوہدری نثارعلی کے مقابلہ کے لیے پیپلزپارٹی اور ق لیگ اتحادی امیدوار لانے کے کوشاں

حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے محمد نواز کھوکھر اور فرزانہ راجہ کا نام لیا جا رہا ہے مسلم لیگ (ق)کی جانب سے محمد ناصر راجہ بھی میدان میں ہیں
محمد ناصر راجہ اور محمد بشارت راجہ گذشتہ کئی دہائیوں سے اسی حلقہ کی سیاست میں سر گرداں ہیں، مسلم لیگ (ن) کو سابقہ حیثیت بحال رکھنے کیلئے جدو جہد کرنا ہو گی
حلقہ مسلم لیگ کا اکثریتی ہے 1988ء میں راجہ شاہد ظفر کی کامیابی ،محمد بشارت راجہ اور سید ریاض حسین شاہ کی آپس میں ووٹ تقسیم کرنے کی وجہ سے ممکن ہوئی
کلرسیداں (تجزیاتی رپورٹ ناصر بشیر راجہ نمائندہ پنڈی پوسٹ )پیپلزپارٹی کی حکومت تمام الزامات کے باجود اپنا پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرنے کے قریب ہے۔ ملک میں آئندہ انتخابات کی باز گزشت واضع طور پر سنی جا سکتی

ہے ۔جس کے لئے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔مسلم لیگ (ن) فرینڈلی اپوزیشن کا نام سر پر سجائے میدان میں اترنے کے لئے تیار ہے ۔تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان اپنی ٹیم کے ہمراہ سونامی کے آنے کی نوید سنا رہے ہیں ۔جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں بھی انتخابی اکھاڑے کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ضلع راولپنڈی کا خلقہ NA-52ہمیشہ سے بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے دونوں جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے مرکزی قائدین اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے سابق وزیر راجہ شاہد ظفر ،مسلم لیگ کے سابق وزیر محمد اعجاز الحق اور موجودہ قائد حزبِ اختلاف چوہدری نثار علی خان بھی اسی حلقے سے ممبر اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ حلقہ 52کا مختصر جائزہ قارئین کی نظر ہے۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں راولپنڈی شہر اور کلرسیداں پر مشتمل حلقہ NA-39سے راجہ شاہد ظفر نے 41771ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ محمد بشارت راجہ نے 37475ووٹ حاصل کیے ۔ محمد بشارت راجہ اس وقت چےئر مین کونسل ضلع راولپنڈی بھی تھے ۔1985ء کے بعد1988ء میں انتخابات ہوئے جن میں حلقہ NA-39سے پیپلز پارٹی کے راجہ شاہد ظفر نے 60701ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ۔مسلم لیگ کے محمد بشارت راجہ نے44719اور سید ریاض حسین شاہ نے 38996ووٹ حاصل کیے۔ راجہ شاہد گلفرازکو بعد ازاں وفاقی وزیر بنا دیاگیا۔1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد تمام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے کے لیے نو جماعتی اسلامی جمہوری اتحاد معرض وجود میں آیا 1990کے عام انتخابات حلقہ NA-39سے اسلامی جمہوری کے محمد اعجازالحق 87829ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے راجہ شاہد ظفر نے 57130ووٹ حاصل کیے1988ء کے الیکشن میں 38 ہزار سے زائد ووٹ لینے والے سید ریاض حسین شاہ صرف 3582ووٹ حاصل کر سکے 1993ء کے انتخابات میں اس حلقے سے پھر سابقہ حریف میدان میں اترے اور مسلم لیگ کے محمد اعجاز الحق 87676ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے راجہ شاہد ظفر نے64655اور تحریک انصاف کے چوہدری زمرد حسین ایڈوکیٹ نے 5174ووٹ حاصل کیے ۔1993ء میں بے نظیر بھٹو دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ 1997میں ان کی حکومت کو ان کے صدر فاروق لغاری نے برطرف کر دیا جس کے بعد1997ء میں الیکشن ہوئے ۔حلقہ NA-39سے مسلم لیگ کے اعجاز الحق نے 87392 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی پیپلز پارٹی کے راجہ شاہد ظفر اس مرتبہ صرف 31838ووٹ حاصل کر سکے۔ 1997 میں بننے والی میاں نواز شریف کی حکومت کو بعدازاں جنرل پرویز مشرف نے ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت الیکشن کروائے جن کے مطابق حلقہ NA-39کی کی جغرافیائی حدودکو تبدیل کر کے اس کو حلقہ NA-52بنا دیا گیا جس میں چک بیلی خان ، کلر سیداں اور راولپنڈی کے علاقوں کو شامل کیا گیا ۔2002کے الیکشن میں حلقہ NA-52سے مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نثار علی خان میدان میں اترے اور 73671ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے مسلم لیگ(ق) کے امیدوار محمد ناصر راجہ 56645اور پیپلز پارٹی کے محمد صغیر کھوکھر 11684ووٹ حاصل کر سکے ۔یہا ں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسی حلقہ کے ذیلی صوبائی حلقہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر ظفر اقبال نے 27 ہزار سے زاہد ووٹ حاصل کیے 2007میں مشرف حکومت نے عام انتخابات کا اعلان کروایا انتخابی مہم کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سی الیکشن مختصر مدت کے لیے ملتوی کیے گئے۔ 2008کے انتخابات میں حلقہ NA-52 سے مسلم لیگ (ن)کے چوہدری نثار علی خان نے 97747 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی مسلم لیگ (ق) کے محمد ناصر راجہ 54988اور PPکے خرم پرویز راجہ 54988ووٹ حاصل کر سکے ۔اگر حلقہ NA-52کا 1985سے لے کر آج تک جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ یہ حلقہ مسلم لیگ کا اکثریتی حلقہ ہے 1988ء میں اس حلقہ سے PPکے راجہ شاہد ظفر کی کامیابی ،محمد بشارت راجہ اور سید ریاض حسین شاہ کی آپس میں ووٹ تقسیم کرنے کی وجہ سے ممکن ہوئی باقی تمام الیکشن میں مسلم لیگی امیدوار واضع اکثریت سے کامیاب رہے ۔2002اور 2008کے الیکشن میں مذکورہ حلقہ سے نئی سیاسی صف بندی سامنے آئی جن سے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو مزید نقصان پہنچا 2002 ء کے الیکشن میں شکست کے باوجود مسلم لیگ (ق) کے راجگان آف دھمیال نے اپنی بساط سے بڑھ کر عوام کی خدمت کی۔ کلرسیداں تحصیل کا قیام ،مانکیالہ اوورہیڈ بریج ،رابطہ سڑکیں اور سیورج کی سکیمیں آج بھی ان کی کارکردگی کا ثبوت ہیں لیکن عوام سے رابطہ کے باوجود 2008میں علاقہ کی عوام نے مشرف سے وفاداری کی پاداش میں انہیں مسترد کر دیا محمد ناصر راجہ کو 40ہزار سے زائدووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محمد ناصر راجہ اور محمد بشارت راجہ گذشتہ کئی دہائیوں سے اسی حلقہ کی سیاست میں سر گرداں ہیں جبکہ چوہدری نثار علی خان نے 2002 میں نئے حلقہ سے الیکشن لڑا۔آمدہ الیکشن کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے چوہدری نثار علی خان بلا شرکت غیر امیدوار ہیں ۔حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے محمد نواز کھوکھر اور فرزانہ راجہ کا نام لیا جا رہا ہے ۔مسلم لیگ (ق)کی جانب سے محمد ناصر راجہ بھی میدان میں ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے مرزا خالد محمود امیدوارہیں۔انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں اس سے قطہ نظریہ بات عیاں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو سابقہ حیثیت بحال رکھنے کیلئے جدو جہد کرنا ہو گی حلقہ میں مسلم لیگی ورکرز کی واضع گروپ بندیا ں دیکھی جا سکتی ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مسلم لیگی لیڈروں کی تعداد ورکروں سے زیادہ ہے دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) اتحادی کے طور پر متفقہ امیدوار میدان میں لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ دونوں جماعتوں کے ووٹ اگر جمع ہو جائیں تو مقابلے کی صورت پیش آسکتی ہے لیکن تا حال امیدواروں کا اعلان نہ ہونا دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت اور ورکروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ حلقہNA-52کے نتیجے کا فیصلہ وقت اور حلقہ کے عوام کریں گے لیکن یہ امر طے ہے کہ دونوں جماعتوں کے ووٹوں میں واضع فرق کو پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی طرح پورا کرنا ہو گا ۔اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں