پروفیسر شاہد جمیل منہاس کی آٹھویں کتاب”چلتے پھرتے لوگ“پر میرا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔میں اور میرا ایک دوست کسی ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے تو اچانک میرے بھائی شاہد جمیل منہاس کے بارے میں بات چیت شروع ہو گئی
۔ ہماری باتوں میں ایک سوچ آپس میں ملتی جلتی نظر آ رہی تھی اور وہ بات یہ تھی کہ شاہد جمیل کے دل و دماغ اور ہر سوچ میں انسانیت کا درد اور پھر انسانیت کا درس دن رات گھومتا ہوا دکھائی دیتا ہے
۔ یہ بندہ گرمیوں میں اور سردیوں جب گاڑی چلا رہا ہوتا ہے تو سڑک پر کوئی لڑکا ہو یا بزرگ اپنی گاڑی روک کر اسے گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ کھول کر اسکا ہاتھ پکڑ کر آگے دوسری سیٹ پر بیٹھا دیتا ہے۔ دو چار دن قبل میں نے عبدالخطیب چودھری کا تبصرہ پڑھا جو پنڈی پوسٹ میں اس کتاب کے حوالے سے لکھا گیا تھا
تو اس میں جب میں نے شاہد بھائی کا قصہ سنا تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ایک بار میں اور شاہد جمیل اپنے آفس میں گپ شپ کر رہے تھے تو ایک 60 برس کا بندہ آیا
جس کے پاؤں میں سخت سردی میں شوز نہیں تھے اور جو پلاسٹک کے جوتے اس نے پہنے ہوئے تھے وہ چار جگہوں سے ٹوٹے ہوئے تھے۔ جب شاہد جمیل نے اسکے جوتوں کو دیکھا تو پہلے انکی آنکھیں نم ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر اچانک اس بندے نے اپنے شوز اتار کر اسے پہنا دیے
اور اس بزرگ کے پھٹے ہوئے جوتے پہن کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور اپنے گھر چلا گیا۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ اس افرا تفری کے دور میں بھی ایسے دوست مجھے ملے اور پھر میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہے ہوں۔ پروفیسر شاہد جمیل منہاس میرے کلاس فیلو بھی ہیں
اور ہم دونوں شادی کے دوست بھی ہیں اور یہ دوستی ہمارے دادا اور ابو سے شروع ہو کر اب تک اسی مثبت انداز میں چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کتاب میں شاہد بھائی نے ان افراد کا ذکر کیا ہے جو امیر بھی ہیں اور غریب ترین بھی ہیں۔ شاہد جمیل منہاس نے ان امیروں کو اس تصنیف میں شامل کیا ہے
جو امیر ہوکر بھی کہتے ہیں کہ اللہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزما رہا ہوتا ہے۔ یعنی وہ دولت مند جو امیر ہو کر بھی اپنی گردن زمین کی طرف کیے رکھتے ہیں اور یہی بات میرے مالک کو بے حد پسند ہے۔ یہ فرد اگر کسی فروٹ والے کے پاس دو منٹ کھڑا ہو جائے تو اس کا چہرہ دیکھ کر اسے پہچان جاتا ہے
اور اگلے دن اس پر بہترین انداز میں تحریر لکھ کر تمام افراد کو بہترین سبق دے کر دوسری جانب چل پڑتا ہے۔ ایک دفعہ ہوا یوں کہ شاہد بھائی اپنی گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے تو اچانک انکی نظر ایک بوڑھی عورت پر پڑی مگر شاہد بھائی آگے نکل گئے مگر جب شاہد بھائی نے اسے دیکھا تو گاڑی واپس موڑ کر اسکے پاس آ گئے اور جب اس نے بتایا کہ میرے تین بیٹے جب اسلام آباد سے واپس راولپنڈی آ رہے تھے تو انکا ایکسیڈینٹ ہو گیا
اور وہ تینوں ادھر ہی اللہ کے پاس چلے گئے۔ وہ تینوں شادی شدہ تھے۔ پھر شاہد آدھا گھنٹہ اسکے پاؤں میں بیٹھا رہا اور لوگ تصویریں بناتے رہے۔ اس کے بعد اب میں آگے نہیں لکھ سکتا کیونکہ میں بھی رو رہا ہوں اور اس بوڑھی عورت کا سارا کالم اس کتاب میں موجود ہے۔
پروفیسر شاہد جمیل منہاس بیشمار کالجز میں پرنسپل کے عہدے پر رہ چکے ہیں اور آج بھی پرنسپل ہیں۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے تین ماسٹرز کی ڈگریاں لے رکھی ہیں اور خطہ پوٹھوہار کے لیے اعزاز کی بات کہ شاہد جمیل منہاس کی شخصیت اور تحریروں پر فیڈرل اردو یونیورسٹی میں ایم فل بھی ہو چکا ہے
اور دوسرا تھیسز شاہد بھائی کی شخصیت اور تحریروں پر اس یونیورسٹی سے ہوا جہاں سے اس ہیرے نے چار ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں یعنی پنجاب یونیورسٹی لاہور پاکستان سے۔میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں اس شخص کا دوست اور بھائی ہوں جو ضلع راولپنڈی پنجاب اور پاکستان میں جانی پہچانی شخصیت ہے۔
میرا ایک مشورہ ہے میرے پیارے دوست شاہد بھائی کیلئے کہ آپ نوجوانوں کیلئے بے شمار تحریریں لکھ چکے ہیں مگر جو نوجوان نسل نشے کی طرف جا رہی ہے انہی سدھارنے کا ایک ہی حل ہے کہ اپنے علاقے کے ارد گرد دو چار گراؤنڈ بنا دیے جائیں
تاکہ یہ خوبصورت نوجوان اپنے والدین کے پھولوں جیسے شہزادے اور شہزادیاں کھیل کے میدان میں اتر کر خود کو صحت مند بنا دیں اور اس معاملے میں، میں آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ کچھ تحریریں سڑکوں اور غیر قانونی تجاوزات کے حوالے سے مثبت انداز میں لکھ کر اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں
تاکہ بروز قیامت آپ اللہ کے سامنے بہترین انداز میں حاضر ہو سکیں۔ آپ نعت کی تین کتب کے مصنف ہیں اور اپنی لکھی ہوئی نعت جب پڑھتے ہیں
تو ہرطرف سناٹا چھا جاتا ہے اور آپ کی ایک نعت ساری دُنیا میں معروف ہو چکی ہے جس کا پہلا شعر یہ ہے
میرے نبی ص کا جمال دیکھو
نہیں ہے سایہ کمال دیکھو
اللہ پاک میرے دوست اور بھائی کو ایسے ہی بہترین انداز میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کوئی پریشانی اس کے پاس سے بھی نہ گزرے آمین