تحریر :نویدستی
یوں تو تاریخ اسلام کا ہر ایوان اولیاءکا ملین کے روحانی ،عرفانی ، و جدانی کمالات و اعجازات کا آئینہ وہے تاہم تجدید و احیائے اسلام کے علاوہ کار کشائی و حاجت روائی کی جو داستانیں اولیائے اسلام نے رقم کیں ۔انہی اطیب واطہرمیں سے ہمارے ممدوح عمدہ الو اصلین سراج السالکین محسن انسانیت حضرت پیر طریقت رہبر شریعت پیر صوبیدا رمسنجف علی سرکاؒؒؒ ر ( المعروف بڑے سرکا ر ) بھی ہیں جو چو دہویں صدی ہجری کے گوہر شب چراغ تھے آپ کا تعلق تحصیل کوٹلی ستیاں کے نواحی علاقہ بلا وڈہ شریف سے ہے وہاں سن 1932میں جب آ پ ؒؒؒؒ نے آنکھ کھولی اس وقت خود ساختہ عقائدونظریات کی بھر مارنے فضاءکو دھندلادیا تھا مگرصراط مستفیم کی جستجو میں ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خوائش موجزن ہوئی لیکن ملکی حالات اورعلاقائی روایات کے پیش نظر اپنی خدمات افواج پاکستان کے سپرد کر دیںدوران سروس شیردل پانچ پنجا ب رجمنٹ میںثانوی و اعلیٰ تعلیم حاصل کی بعد ازاں انگریزی عربی اورفارسی میں ماسٹر کر نے کےلئے ڈھاکہ یونیورسٹی کورونق بخشی اور حصول تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ہی صوبیدار میجرکی حیثیت سے افواج پاکستان سے اپنی سروس مکمل کی تا ہم اس وقت آپ ؒؒؒعوام وخواص میں صوبیدار صاحب کے نام سے شہرت پاچکے تھے بعدازاں اٹامک انرجی میں خد مات سرانجام دیتے ہوئے کراچی قیام اختیار فرمایااور مرشد کامل حضرت پیر صوفی عبدالغنی صاحب المشہور پیر صوفی صدیق اکبرؒ کے وست حق پر ست پر بیعت لی اور عر صہ پانچ سال 9ماہ 22دن مرشد کا مل کی خدمت میں گزارے اور تمام
عر صہ گھر واپس نہ آئے کیوں؟
خدا کا قرب فضا کی پنہائیوں، خلاک کی گہرائیوں یازمین و آسمان کی وسعتوں کو چیرنے سے نہیں ملتا بلکہ قرب حق کا راستہ اپنی ہستی کی طرف ہی مڑتا ہے جس طرح ڈش کے رخ اور ایڈجسٹمنٹ پر نیچر آف ٹرانسمیشن کا انحصار ہے اسی طرح احوال قلب کو بھی سمجھ سکتے ہیں قلب میں نور یا تجلیات کا وارد ہونا اللہ مقلب القلوب کے دست قدرت میں ہے چاہیے تو َپل بھر میں قلب کو پھیر دے جس طرح انٹینا کا رخ پھیرتے ہی نشریات بدل جاتیں ہیںاسی طرح لحظہ بھر میں دل تجلیات کا مرکز بن جاتا ہے
حضرت پیر طریقت رہبر شریعت پیر صوبیدا رمسنجف علی سرکاؒؒؒ ر ( المعروف بڑے سرکا ر )نے پانچ سال9ما220دن حضرت صوفی صدیق اکبر ؒ کی سرپرستی میں دینی اور روحانی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے فیضان مرشد کے حصول سے فراغت کے بعد آپؒ نے درس و تدریس اور رشد وہدایت کی مجالس کو گرمانا شروع کیا رسوم شرعیہ کومٹانے اور ابتاع شریعت کو فروغ دینے میں مگن ہو گئے
والی بلاوڑہ شریف قیوم زمان حضرت پیر طریقت رہبر شریعت پیر صوبیدا رمسنجف علی سرکاؒؒؒ ر ( المعروف بڑے سرکا ر )بیسویں صدی عیسوی کے ان جلیل القدر صوفیائے میں سے ہےں جنہوں نے ہزاروں گم گردہ راہ انسانوں کو نشان منزل سے آشنا کیا۔آپ کی ذات مجمع الصفات تھی آپ بیک وقت اہل دل صوفی ،قیوم زمان ،سلطان الفقرءتھے آپ کی گفتگو میں اتنا درد سوز اور اثرہے کہ براہ راست دل پر آہ کرتی ہیںہر عام و خا ص آپ کے پر تاثیر و پر بہار گفتگو سے فیض حاصل کرتاور راحت اٹھاتا آپ ؓ کی زبان حق ترجمان سے ایک ایک لفظ روح کی گہرائیوں سے نکلتا اور دل کی پنسائیوں میں اتر جاتا ہے
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے راہ تصوف میں نئے انداز متعارف کروائے آپ فرماتے ہیںعشق حصول معرفت کی اساس اور بنیاد ہے جس سے حضرت انسان کو حقیقی سکون میسر آ تا ہے۔آپ نے ہمیشہ اپنی گفتگو میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ساتھ نبی کریم رﺅف الرحیمﷺ کی ذات باکمال کو اس عشق کا مرکزومحورقرار دیتے ہیں۔یعنی اتباع رسولﷺ پر پختگی اوردوام عطاکرتاہے۔اطاعت وبندگی کا اصل حسن اسی والہانہ عشق ومحبت کے ذریعے ہی بکھرتاہے اور گوہرمراد حاصل ہو تا ہے۔آپؒکے وجودمیں عشق ومستی اور تعظیم وتکریم کا جوہر اس قدرظہورپا یا جاتا کہ تین سال بغیر لنگر تناول فرمائے اپنے مرشد کریم کے درپر لنگر تقسیم فرماتے رہے ایک بار مرشد کریم نے پوچھا مسنجف علی لنگرکیوں نہیں کھاتے تو آپ نے عرض کی حضور !آپ نے لنگر تقسیم کرنے کا حکم فرمایا تھا نہ کہ کھانے کا ۔ آ پ کی زندگی کا لمحہ لمحہ مخلوق خدا کے غموںکا مداواکرتے کرتے گزراہے حقیقت یہ ہے کہ حضرت سلطان الفقراءپیر صو بیدار مسنجف علی سرکا ر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی ظا ہری حیا ت کا لمحہ لمحہ یقین محکم استحکا م امت ،سلا متی امن و آشتی راواداری ،اعتدال پسندی اور مخلو ق خداکے دکھوں کو سکھوں اور بیما ریوں کو شفاﺅں میں بدلنے کے لئے وقف کیے رکھاآپ کی با برکت سانسوں میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب 50000لو گوں کو ایک ہی پھو نک میں شفا ملی دکھوں کا بو جھ اٹھا نے والے خو شیوں سے شفا ءکا نو ر لیکر واپس لو ٹے ان مرد درویش نے اپنی حیا ت مبا رکہ میں اپنی مسند پر اپنے جانشین اور قلند دوراں صاجزا دہ حق خطیب حسین علی با دشا ہ سرکا ر کو فا ئز فرما یا جو اس روحا نی مغز کے آمین اور ترجما ن ہیں اور مخلو ق خدا کی خدمت میں ہی مشغو ل و مصروف رہتے ہیں والی بلا وڑہ شریف حضرت سلطان الفقراءپیر صو بیدار مسنجف علی سرکا ر رحمتہ اللہ علیہ کا17ستمبر2004 بروز جمعتہ المبا رک کووصال ہوا جو کہ لا کھوں زائرین ، مریدین و عقیدت کے لیے ایک بڑے سانحہ و دکھ کا دن تھا آپ رحمتہ اللہ کا عرس مبا رک ہر سال مئی کے تےسرے ہفتے بروز ،جمعہ ،ہفتہ اور اتوار کو منا یا جا تا ہے مگر ماہ رمضا ن المبا رک کے با عث 15واں عرس مبا رک اس سال 28,29,30جون بروز جمعہ ،ہفتہ ، اتوار کو دربا ر عالیہ بلا وڑہ شریف میں سپہ سالا ر تحفظ ختم نبو ت ، قلندر دوارں، حضرت صا حبزادہ حق خطیب حسین علی با دشا ہ سرکا ر کی زیر صدا رت انعقا د پزیر ہو رہا ہے
یوں تو تاریخ اسلام کا ہر ایوان اولیاءکا ملین کے روحانی ،عرفانی ، و جدنی کمالات و اعجازات کا آئینہ وار ہے تاہم تجدید و احیائے اسلام کے علاوہ کار کشائی و حاجت روائی کی جو داستانیں اولیائے اسلام نے رقم کیں مﺅرخ اس پہ انکشت بدندوں ہے اس سلسلہ کی ایک کڑی خطہ پوٹھوار کے علاقہ بلاوڑہ شریف لئے جاتی ہے جہاں محسن انسانیت فیض یافتہ بارگاہ پر وردہ آغوش و لایت قلندر دوراں ، قیوم زماں خضرت صاحبزادہ حق خطیب حسین علی بادشاہ سرکار مدظلہ و العالی کو دیکھ کر اولیاءامت محمد یہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اکیسویں صدی کے اس پر پیچ ،شورش زدہ ، فرقہ واریت ،عصبیت ،خودغرض،انتہا پسندی مذہبی جنونیت ،سیکولرزم لبرل ازم اور نفسا نفسی کے اس عالم میں والی بلا ورڑہ شریف کا کردار اور خدمات امت مسلمہ کیلئے روشنی کا مےنار ہیںآج دنیا میں من گھڑت عقائد اور ازموں کی بھر مار نے فضا کو دھنسلا دیا ہے ا ستعمار ےت اور اشتراکیت جس طرح اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں ہر راستہ اپنا رہی ہے اس نے انسان پر انسان کا اعتماد متزلزل کر دیا ہے بے یقینی اور عدم اطمینان کی کیفیت ہر انسان پر چھائی ہوئی ہے لوگ غموں سے گرفتہ اور دکھوں سے آفسردہ ہیں اور یو رپ کی اس قدر ترقی کے باجود انسانی چہرے خزاں رسید ہ پتوں کی مانند زرد ہیں کہ اب یہ انسان مادی آلائشوں اور آسائیشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک گیا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ او ر یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ اپنی تمام تر خوشیوں کو چھوڑ کر چرس افیون اور شراب کے جام میں اپنے غموں کو گھول رہے ہیں یہ و ہ لوگ ہےں جن کے پاس مادی آسائش کے نام پر سب کچھ ہے نہیں ہے تو اطمینان قلب اور روح کی طمانےت جو نہ ان کو معاشرہ دے سکتا ہے اور نہ ان کے خود ساختہ عقائد ۔ سرعت سے پھیلنے والے اس سرطان کا علاج نہ تو یور پ ا ور امریکہ کے دانش وروں کے پاس ہے اور نہ ہی ان کی تہذیب سے متاثرہو کر اپنے چال بھول والے دانش فروشوں کے پاس کچھ ہے ان کے دکھوں کا اگر کہیں مداوا ہے تو دنیا کے عظیم رو حا نی معالج و قلند دوراں سپہ سالا ر تحفظ ختم نبو ت حضرت صا حبزا دہ خطےب حسےن علی بادشاہ سرکار سجا دہ نشین دربا ر عالیہ بلا وڑہ شریف کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے جہاں مذہب کی سچائی، حق گو ئی اور شفاءکا سمندر ہے نور کے حصول کےلئے مجسمہ عجزو انکساط اپنے آقا و مولا مشکل کشاد ، حاجت رواءحضرت محمد کے باب رحمت پر منگتا بن کر دکھائی دے جو اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے ایک ہیں جو کہ ولی اللہ اور صوفی با صفا ہیں حال مست بھی ہیں اور وحدت الوجود اور ہمہ دوست کے قائل بھی ہیں لیکن کیا مجال ہے کہ ان کی زبان سے کوئی غیر شرعی لفظ نکلے یا ہاتھوں سے کوئی خلاف شرع کام سرزدہ ہو ان کی ذات کا مطالعہ کرنے کے بعد دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ دن رات توحید اور فنا فی اللہ میں دن رات مگن رہتے ہیں مسلسل غوطے لگانے اور شراب و حدت کے پیالے نہیں خم نہیں بلکہ دیا نوش کر جانے کے باوجود آپ کا ظرف اتنا عالی ہے کہ نہ بے خود اور مست ہو کر نعرہ انا الحق لگاتے ہیں اور نہ ہی صوم و صلوة عبادات و ریاضیات میں کمی آتی ہے ساری رات شب بیداری میں مخلو ق خدا کی خدمت میں گزرتے ہیں اور تقلیل غذا کا یہ عالم ہے کہ چند لقموں پر اکتفا کرتے ہیں لیکن لنگر پر ہزاروں پل رہے ہیں ۔
شریعت و طریقت کی اس جامعیت کو دیکھ کر رسول اللہ کا زمانہ اور اصحاب ؓ کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے کہ وہ دست پکار ، دل بہ یار، کے مطابق محو خیال دوست بھی ہیں اور دنیاوی فرائض بھی انجام دے رہے ہیںغرق مئے توحید بھی ہیں اور ہشیار اور صاحب تمکین بھی ہیں رواداری اور فراخ دلی کا یہ حال ہے کہ صوفی بھی ہیں، حق تعالیٰ کی عبادت میں بھی منہمک ہیں اور خدمت خلق میں بھی مشعول ہیں امراءو زراءکو بھی ہدایت دے رہے ہیں اورغرباءاور ےتیمی اور بیواﺅں کی بھی پرورش کررہے ہیں سالکین راہ طریقت کی تربیت بھی ہور ہی ہے اور عوام کالانعام کو بھی گمراہی سے نکال رہے ہیں حضرت والی بلاوڑہ شریف کی اس جامعیت سے کئی قسم کے اشکال حل ہو گئے ہیں اور آپ کی ذات کا مطالعہ کرکے کئی قسم کے لوگوں کی رہنمائی ہوتی ہے اول یہ کہ ان ملکوں اور بھنگڑوں کی رونق بازار ختم ہو جاتی ہے جنہوں نے یہ ڈھونگ رچاکر مخلوق خدا کو گمراہ کیا ہے کہ شریعت اور چیز ہے اور فقیری اور چیز ہے دوسرے ہمہ اوستی متوالوںکا پول کھلتا ہے جو ہمہ دوست کے پردے کے پیچھے صوم و صلوة ترک کررہے ہیں تیسرے ان نام نہاد صوفیوں ،عاملوں نجومیوں اور موفت و طریقت کے لبادے میں ملبوس بہروپیے جو قال کی دنیا میں بس رہے ہیں اور مال کی گرہ تک نہیں پہنچتے
المختصر! ہم عصر حاضر کے ایک کامل اکمل شیخ کی ظاہری وباطنی زندگی کے چند پہلو ﺅں کو صاف اور آسان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ
آپ قطب الافطاب حضرت سیدنا شیخ عبدالکادر جیلانی امحسن والحسین ؓکے باطنی مرید ہیںآپ کا تعلق سلسلہ قادری قلندری ہے۔قادری جلال وجمال کے باوجود تواضع وانکساری کا یہ عالم ہے کہ 7کروڑ سے زائد انسانوں کی دستگیری فرمائی لیکن کوئی شخص یہ کہہ نہیں سکتا کہ اس نے سرکار کے چہرے پر ناگواری یاغرور کی جھلک بھی دیکھی ہو ۔ہر ایک سے اس قدر شفقت فرماتے ہیںکہ آنے والا تمام تکالیف بھول جاتا ہے ۔آ پ کے عقائد شرےعت مسلک طرےقت سکوک الی اللہ بلند ی کلام مسلک وحدت الوجود آ پ کی فنا وبقاءآپ کے عروج ونزول آپ کے اورادو وظائف اذکار ومثاغل و مراقبات آپ کی جامعنیت اور روحانیت اسلام اور اپنے آقاومولامشکل کشاءحاجت رواءحضرت محمد سے محبت آپ کے بلند ترین مقام کی نشانیاں کر رہی ہے اکیسویں صدی کے اس پر پیچ ،شورش زدہ ، فرقہ واریت ،عصبیت ،خودغرض،انتہا پسندی مذہبی جنونیت ،سیکولرزم لبرل ازم اور نفسا نفسی کے اس عالم میں والی بلا ورڑہ شریف سپہ سالا ر تحفظ ختم نبو ت ، قلندر دوارں، حضرت صا حبزادہ حق خطیب حسین علی با دشا ہ سرکا ر کا کردار اور خدمات امت مسلمہ کیلئے روشنی کا مینارہیں۔
والی بلاوڑہ شریف سپہ سالا ر تحفظ ختم نبو ت ، قلندر دوارں، حضرت صا حبزادہ حق خطیب حسین علی با دشا ہ سرکا ر کی اس جامعیت سے کئی قسم کے مسائل حل ہو نے کیساتھ ساتھ ،کروڑوں لوگوں کو شفا ءملنے کی تاریخ رقم ہو ئی جو کہ شا ئد رہتی دنیا تک قائم رہے اور مختلف مصا ئب و آلا م میں گرے لوگ جو چا ہیے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہو ں رنگ و نسل کی تفریق کیے بغیر انہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی معیت میں جہا ں تسکین قلب نصیب ہو ئی وہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے عشق مصطفی ﷺ اور محبت رسول ﷺکو عام کر نے کے لیے دنیا کے کو نے کو نے میں تا ریخی محفلوں کا انعقا د کر کے اس دو ر میں جبکہ عزت رسول ﷺ پر طا غوقی و اسلام دشمن قوتیں پے در پے حملہ آور تھیں اور تو اور اسلامی جمہو ریہ پاکستان کی قانو ن ساز اسمبلی میں تحفظ ختم بنو ت بل میں ترمیم کی بھی وار کی گئی اس وقت گجرا ت ، سیالکو ٹ ، چکوال ، لا ہو ر فتح جنگ اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں جہا ں ایک ایک محفل میں سات ,سات لا کھ سے زائد عاشقا ن مصطفی ﷺ نے سپہ سالا ر تحفظ ختم نبو ت ، قلندر دوارں، حضرت صا حبزادہ حق خطیب حسین علی با دشا ہ سرکا ر کی قیادت میں لبیک یا رسول ﷺ کی صدا ﺅں کو بلند کر کے یہ ثا بت کیا کہ عظمت رسول ﷺ پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور آپ کی سرپرستی میں تحفظ ختم نبو ت گو یا کہ آپ کی زیر صدا رت جہاں انٹر نیشنل سطح پر دوبئی جیسے ملک میں اوپن محفل میلا د مصطفی ﷺ کا محض تصور ہی کر کو ئی کر سکتا تھا آپ نے دبئی میں ایسی تا ریخی محفل میلا دمصطفی ﷺ کا انعقا د کر کے عرب اما را ت میں بھی ایک نئی تا ریخ رقم کی کہ اسلامی دنیا کی تمام ریا ستیں ششد ر رہ گئیں۔جب اےک ملعون نے حضورﷺ کے خاکو ں کا عالمی مقا بلہ کروانے کی تمام تےارےاں مکمل کرلی تو والی بلاوڑہ شرےف نے قومی اور عالمی سطح پر اس مقابلہ کو رکوانے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کےا اور ےورپےن پارلےمنٹ مےں اپنے خط کے زرےعے اس معاملے کوپےش کےا اور اپنے پکے اور سچے عاشق رسول ہونے کا ثبوت پےش کےا ۔مملکت پاکستان مےں فتنہ قادےانےت نے جب زور پکڑا تو والی بلاوڑہ شرےف صا ھبزادہ ھق خطیب حسین علی با دشاہ سرکا ر نے دربا ر عالیہ بلا وڑہ شریف کے مرید ڈا کٹر عا مر لیا قت ایم این اے سے قومی اسمبلی اور اور حا فظ عما ر یا سر سے صوبائی اسمبلی پنجاب مےں تحفظ ناموس رسالت ماب ﷺ کے لئے قراردادےں پےش کروائےں ۔او ر انتہائی مشکل حالات مےں ا وفا قی دارلحکو مت سلام آباد مےںتاجدار ختم نبوت کا نفرنس کا انقعا د کےا جس وقت فتنہ قادےانےت کے مکروہ عناصر ہر لحاظ سے متحرک تھے اور ان کو ہر طرح کی عالمی حماےت حاصل تھی۔اس کے علاوہ آپ نے انگلےنڈ مےں عالمی تاجدار ختم نبوت کا انقعاد جس مےں دنےا بھر سے لوگو ں نے شرکت کی اور ےہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پےر مہر علی شاہ ؒ کے بعد اگر کو ئی صحےح معنو ں مےں عقےدہ ختم نبوت کا محافظ اورسپہ سالار ہے تو وہ والی بلاوڑہ شرےف حضرت صاحبزادہ حق خطےب حسےن علی بادشا ہ سرکار مدظلہ العالی ہےں آ پ ہمیشہ یہی فرما تے ہےں کہ عشق مصطفی ﷺ ، محبت رسول ﷺ کو عام کرنا، تحفظ عقےد ہ تاجدار ختم نبوت اور مخلو ق خدا کی خدمت کرنا ہی میری زندگی کا مشن ہے جس میں آپ کامیابیوں کی ان منا زل کو چھو رہے ہیں جو شا ئد صبح قیا مت تک ایسی کا میا بیوں کی مثا ل شائد ہی کم دیکھنے میں ملے ہر لمحہ نئی سے نئی کرامت اس با ت کی دلیل ہے اللہ تعالی اتنا راضی ہو گیا ہے کہ آپ نگاہ اٹھائیں یا آپ کے ہا تھ جب دعا کے لیے اٹھتے ہیں تو یو محسو س ہو رہا ہو تا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت اسی وقت صحیح جو ش میں ہے
کرامت کا معنی ہے عجیب و غریب واقع اصطلاح میں عقل و دانش سے بالاتر واقعات کا رونما ہونا کرامت کہلاتا ہے۔ ایسے واقعات و افعال کو اصحاب تصوف سے منسوب کیا جاتا ہے جو کہ بلا وڑہ شریف ہر نئی صبح کو لا کھوں لو گو ں کو دیکھنے کو ملتے ہیں۔اللہ اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے واسبقون Oاولئک المقربونOترجمہ : اور لے جانے والے سبقت لے جانے والے ہی ہیں یہی لوگ مقرب ہیں(الواقعہ)
اسی طرح سورة التوری آیت نمبر26میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے۔ ویستجیب الذین امنو وعملو الصلحت و یزیدھم من فضلہ
ترجمہ: ان لوگوں کی دعائیں سنتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور انہیں اپنے فضل سے زیادہ دیتا ہے۔
مذکور ہ بالا آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو لوگ نیکی کے کاموں میں سبقت لے گئے اور نیکی صرف ہی نہیں کی حقو ق اللہ تو ادا کیے اور حقوق العباد کا خیال نہ رکھے بلکہ حقو ق اللہ تو اللہ جب چاہے معاف فرما دے مگر حقوق العباد کی پاسداری لازم ہے ۔ جنہوں نے ایمان لایا اس پر قائم رہے اور احکام الہی کی پاسداری کی اللہ فرماتا ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ دیتا ہے یعنی خلق عام کو بھی وہی دینے والا ہے اور خواص کو بھی دینے والا وہی ہے ۔مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں وہ باقی لوگوں سے زیادہ نوازتا ہے تا کہ وہ اپنی ضروریات کے ساتھ اس کی مخلوق کی خدمت بھی کر سکیں یہی وہی خرقہ پوش ہیں جو رب کی خصوصی عنایات کا مظہر ہیں۔
قلندر دوران حضرت صاجزادہ حق خطیب حسین علی بادشاہ سرکار مدظلہ العالی اکثر فرماتے ہیں کہ کسی زما نے میں اگر اللہ کے کسی بندے سے سالوں میں کسی کو شفا ملتی تھی تو اسے صدیوں تک یا درکھا جا تا تھا مگر آج جب دربا ر عالیہ بلا وڑہ شریف میں ہر نئی صبح نئی کرامت دیکھنے کو ملتی ہے جا گتی آنکھوں سے دیکھ کر بھی آنکھیں مو ڑ لینا یقینا اس با ت کی واضع دلیل ہے کہ اس زمانے میں سچے لو گ ہو تے تھے جو سچا ئی پر پیرا دیتے تھے مگر فی زمانہ سچائی سے منہ مو ڑ لیا گیا قلندر دوران حضرت صاجزادہ حق خطیب حسین علی بادشاہ سرکار مدظلہ العالی کی حیات کا ہر لمحہ کسی کرامت سے کم نہیں آپ مد ظلہ العالی کے آستانے سراپا کرامت ہیں اولیائے اکرام کی پوری تاریخ میں سوائے پیران پیر دستگر سید نا غوث اعظم ؓ کے باقی کسی بھی ولی کی زندگی میں اتنی کرامات نہیں ملتیں جتنی آپ صاجزادہ والی شان کے آستانوں اور آپ مدظلہ العالی سے وابستگان کے نظر آتی ہیں۔ایک ایک دن میں رحمت و عنایات خداوندی کی ایسی تجلیات نظر آتی ہیں جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ، کینسر، ہپاٹئٹس ، شوگر، فالج اور بلڈ پریشر جیسی جان لیوا بیماریوں مےں مبتلا لاکھوں مرےضوں کو آپ مدظلہ العالی کے دست کمال سے رب کعبہ نے شفاءعطافرمائی ہے ۔ اللہ نے آپ مد ظلہ العالی کو ایسی صفا ت سے نوازا ہے جو نظر دیکھتا ہے ۔ آپ مدظلہ العالی کی کرامات کے تذکرہ کے لیے نہ صرف ان گنت صفات درکار ہیں بلکہ ہزار سالہ زندگی درکار ہے ۔ آپ مدظلہ العالی کے آستانے حقیقت کا مظہر ہیں جہاں اہل علم و دانش کے شہسوار نزل کا پتہ بھول جاتے ہیں۔
آپ مدظلہ العالی فرماتے ہیں سب سے پہلے اللہ نے مجھے اپنی قدرت سے اتنا نوازا کہ میں خوب سیر ہوگیا پھر میں اس کی عطا سے اس کی مخلوق میں تقسیم کرنے لگ گیا۔ آپ مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں راولپنڈی اپنے آستانے پر تھا اور میرے مرشد پاک بلاوڑہ شریف میں میرے در مُرشد پر حاضری کا اشتیاق پیدا ہوا دریں اثناءیاسر نامی ایک خادم میرے پاس آیا اور مجھ سے اپنی حاجت بیان کی میں نے تمام رقم اسے دے دی ۔ بعد ازاں جب میں گاڑی میں بیٹھا تو دیکھا کہ گاڑی میں پیٹرول ختم ہے اور اب میں مرشد کی قدم بوسی کو حاضر نہیں ہوسکتا میرا دل رنجیدہ خاطر ہوگیا اور میں واپس اپنے آستانے چلا آیا۔ ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ضیا نامی خادم جو ساتھ کمرے کی صفائی میں مصروف تھا گھبراہٹ کے عالم میں میرے پاس آیا اور کہنے لگا سر کا ر ساتھ کے کمرے کی چھت اور دیواروں سے پیسے گر رہے ہیں ۔ میرے ساتھ دیگر خادمین جب دوسرے کمرے میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں مختلف ممالک کی کرنسی کی برسات ہو رہی تھی میں اپنے کی آزردگی پر نادم ہوا اور اسی حالت میں گاڑی میں جا کر بیٹھ کر مرشد کے قدموں میں حاضر ہوا ابھی میںکچھ قدم دور ہی تھا کہ مرشد میری طرف دیکھ کر
کہنے لگے اللہ والوں کے پاس جانے لیے زاد راہ کی نہیں خلوص نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کرنسی اسی حالت میں بطور امانت خداوندی میرے پاس موجود ہے ۔ درویش کے تعرف میں اللہ نے اتنا دیا کہ درویش کی ساری زندگی کرامت بن جاتی ہے۔ قرآن و حدیث سے اولیا اکرام کرامات کے متعدد واقعات ملتے ہیں جس میں اصحاف کہف ،امت موسوی کے اولیاءسلیمان علیہ السلام کی امت کے اولیاءاور دیگر انبیاءکی امتوں کے اولیا کے تذاکر قران و حدیث میں متعدد بار آئے ہیں جن سے ان کی شان تعرف کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایسے میں امت محمدی ﷺ کے اولیاءکی کیا شان ہوگی اس کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں جن کے لیے اللہ قرآن میں فرماتا ہے لھم البشری فی دحیہ الدنیا والاخرة اور الا ان اولیا اللہ لا خوف علیھم ولاھم یخزنونO
” جب اللہ تعالی کسی سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو آواز دیتا ہے کہ اے جبریل میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں لہذا تو بھی اس سے محبت کر، پس جبریل ؑ بھی اس سے محبت کرتے ہیں پھر جبریل ؑ آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیں کہ اللہ عزوجل فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہذا
تم بھی اس سے محبت کرو پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اللہ اہل زمین کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر دیتا ہے ۔ حدیث مبارکہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب للہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو نہ صرف اس کے چرچے کرتا ہے بلکہ اس کی محبت بھی اپنی مخلوق کے دلوں میں رکھ دینا چھوڑتا ہے۔
321