اکثر دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ کتاب کا نام شاعر یا کسی تخلیق کار کی شخصیت‘ اسلوب اور ریاضت کا غماز ہوتا ہے۔ خطہ پوٹھوہار کے نوجوان شاعر‘ ادیب‘ محقق اور معروف کالم نگار فرزند علی ہاشمی کی پوٹھوہاری شعری تصنیف ”مچ“ نہ صرف پوٹھوہاری شعری تصانیف میں انفرادیت کی حامل ہے بلکہ اس میں موجود متصوفانہ رنگ اسے دیگر کتب سے ممتاز کرتا ہے۔ نیز‘یہ رنگ و آہنگ قاری پر ایک مسلسل کیفیت طاری کر دیتا ہے
فرزند علی ہاشمی کالم نگاری اور بالخصوص تحقیق کے ضمن میں نمایاں شناخت کے حامل ہیں۔ ایوب محسن: شخصیت و فن ‘راولپنڈی کے معروف شاعر نسیم سحر کی ادبی خدمات اور راولپنڈی کی ادبی تاریخ کے موضوعات پر ان کی تصانیف و تالیفات فرزند علی ہاشمی کے تحقیقی رجحانات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ادبی تنظیم ”دبستانِ پوٹھوہار، اسلام آباد“ کے بانی و چیئرمین بھی ہیں۔ ”دبستانِ پوٹھوہار“ کے ذریعے ان کی شعری و ادبی خدمات کا اہلِ پوٹھوہار اور ادبی قلم قبیلہ شاہد اور معترف ہے۔ پوٹھوہاری زبان و ادب کے موضوع پر ان کے تحقیقی کالم قومی اخبارات میں مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں۔
نیز انھوں نے پوٹھوہاری کی جدید املا پر بھی کام کیا ہے۔ اس ضمن سے ان کی کتاب ”مچ“ ایک اہم حوالہ ہے، جس نے انھیں ایک نئے زاویے سے متعارف کرایا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں مارگلہ اور پوٹھوہار کے پہاڑوں کے اندر کوئل کی مانند کوکتی آواز اور بازگشت مسلسل اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔ یہ ایک روحانی ”مچ“ ہے جس سے پھوٹنے والی لَو سب کو دیوانہ وار اپنی طرف مائل کیے ہوئے ہے۔”مچ“ تصوف میں ایک جہان ہے جس کے باسی کسی جگہ پر زیست بِتا رہے ہوں
‘ وہ اپنی گفتگو اور کردار سے بخوبی پہچانے جاسکتے ہیں۔ ”مچ“ کے اندر تصوف‘ روحانیت‘ اہلِ بیت اطہار اور اولیائے کرام سے روحانی نسبت کے موضوعات پر لاتعداد اشعار فرزند علی ہاشمی کا الگ سے تعارف کراتے ہیں۔ان کا تصوف اور روحانیت سے گہرے تعلق کا اظہار ”مچ“ کی صورت میں اپنے رنگ بکھیرتا نظر آتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
جے میں شہر مدینے گچھاں
پیش کراں میں اَپڑیاں اکھاں
مہھاڑے کول تے کجھ نینھ لوکو
مہھاڑا کل ایمان محمدؐ
لوکاں پَنڈاں چائیاں ہوسنڑ
مہھاڑا مال اَسباب علی اے
ذکرِ زہرا وچ ای ساہ چلناں پیا، فیر
ڈور ترٹسی ”زہرا“ اَپّر یا زہرا
قطرے وچ میں تکیا ہیک سمندر سنگیا
کل جہان امام بری نیں اندر سنگیا
فرزند علی ہاشمی کی غزل کے اندر بھی ہمارے معاشرے میں کانٹوں کی صورت پھوٹنے والے رویے‘گلی کوچوں میں جنم لینے والے مسائل، بے حس اور ضمیر فروش حکمرانوں کی نا انصافیاں‘روشنیوں کے شہروں میں بُجھتے چراغ‘ صاف اور شفاف پانی میں زندہ دلوں کو چاٹنے والے آبی جانوروں کے مزاجوں کو شاعری کی لڑی میں خوب پرویا گیا ہے۔ ان کے ہاں تاریخ ثقافت اور رومان کی تکون جلوہ گر ہے۔ ’مچ‘ کے یہ اشعار دیکھیے جوکہ ان کی ریاضت، مشاہدہ اور اپنی زبان سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں:
روز دیہھاڑے نی چخ چخ کیہ
مکے ہیکے وار تماشا
ویل کویلے دل ناں بوہا
کدوں تک کھڑکاسیں سنگیا
جے کجھ راہسیں اُوہے کپسیں
ہس واری کیہ راہسیں سنگیا
اگے بدھنے اسطے سنگیا
پشلا وقت پہھلانڑاں پیسی
اس نیں وچ ای چھید
کرے ایہ
جس نیں وچے کھانڑیں دنیا
فرزند علی ہاشمی کی شعری تصنیف کا مطالعہ کرتے جائیں تو حیرت کے کئی ان دیکھے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اردو غزل کی روایت اور جدت سے خُوب آشنا ہیں۔ اسی لیے وہ پوٹھوہاری میں اپنے جذبات و احساسات اور مشاہدات کا اظہار بہ احسن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ہاں پوٹھوہاری زبان کے روزمرّہ استعمال ہونے والے محاورات اور ضرب الامثال کا استعمال نمایاں ہے۔ ان کی کتاب میں مزید اشعار کا لطف لیں جن میں انھوں نے تلمیحات کا عمدہ استعمال کیا ہے:
پچھلی راتیں جس لے پنسل چائی میں
نوح کی سوچی کشتی ہیک بنائی میں
آدم حوا ترلے کیتے
دنیا وچ ٹھکانڑاں تکی
یاد خضر نی آئی میکی
کچی کند لپانڑاں تکی
شاہ عبدالقادر جیلانی
ڈبیا تخت وی تاری سٹیا
ذکر یزید ناں اشنے اپر
خونڑ حسینی کھولی سکڑاں
تساں کی سجاد جیا فیر
دنیا وچ لاچار نہ ملسی
مزید اشعار دیکھیے:
پھل کنڈے ہیکے جائی
ربا! ڈاہڈے جوڑے نی
کچے کوٹھے پر بدل
پھوکاں ماری ٹالے نی
ایہ پانڑیں آ۔۔۔سنگیا پانڑیں
ایویں نانہہ مار مدھانڑیں
”مچ” میں زیادہ تر کلام طرحی مصرعوں پر کہا گیا ہے جوکہ ان کی مشقِ سخن، شوق و ذوق اور پوٹھوہاری زبان و ادب سے محبت کا بیّن ثبوت ہے۔ ان کی یہ شعری تصنیف پوٹھوہاری شعری منظرنامے میں میں اپنی جگہ بناتے ہوئے نمایاں ہے۔
اشناں گشناں تکاں اس کی
کندھے وچ میں رکھی باری
سارے میکی چہھلا آکھنڑ
نال اپڑیں گل بانڑاں تکی
اس صدی نیں بچے ڈاہڈے
کن مروڑی دسے کوئی
دل جے میں نانہہ جتی سکیاں
کیتی کیہڑی کمائی میں تے
فرزند علی ہاشمی نے پوٹھوہار میں اپنے حصے کا ”مچ” جلا دیا ہے۔ یہ ”مچ” اہلِ ادب کے قلوب کو محبت اور روحانیت کی روشنی سے روشن تر کرے گا۔ امید ہے کہ فرزند علی ہاشمی کی پوٹھوہاری ادب کی حامل مزید تصانیف منظر عام پر آئیں گی اور قارئین و ناقدین کے لیے مرکزِ نگاہ بنیں گی۔