قارئین کرام! لاہور کا ایک سابق پنجاب پولیس افسر تھا جو جان بچانے کی غرض سے بیرون ملک شفٹ ہو گیا تھا، اس نے سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد نیوز چینلز پہ آ کر بتایا تھا کہ کیسے ہم سیاسی شعبدہ بازوں کی ہدایت پر جعلی پولیس مقابلوں میں بندوں کو پھڑکاتے ہیں اور ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ڈیڑھ دو سال قبل گوجرخان صندل روڈ پر ایک پولیس کانسٹیبل دوران ڈیوٹی شہید ہوا تھا، اس کے مبینہ قاتل کو بھی پولیس نے اسی وقت موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا اور اس مبینہ قاتل کے پکڑے جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ایک ذمہ دار کو بھیجی گئی تھی مگر چونکہ اپنے پروں پہ پانی کون پڑنے دیتا ہے تو وہ معاملہ دبا دیا گیا تھا، گزشتہ سال وارڈ نمبر 9 میں گھر کے اندر گھس کر ”مبینہ پولیس مقابلے“ میں فائرنگ کر کے ایک ”مبینہ منشیات فروش“ کو قتل کیا گیا تھا جس پہ اہل محلہ نے احتجاج بھی کیا تھا مگر بے سود رہا۔گزشتہ دنوں مجھے ایک سیاسی ورکر سرکاری ہسپتال میں مِلا جس نے گِلہ کیا کہ لاقانونیت پہ کوئی نہیں بول رہا، میں نے اسے جواب دیا کہ کون بولے؟؟ اگر میں بولوں اور کل مجھ پہ 150گرام چرس کا پرچہ دے دیا جائے تو میں کہاں ثابت کروں گا کہ میں بیگناہ ہوں؟؟ سلیٹ اٹھوا کر میری فوٹو بنا کر وائرل کر دی جائے گی، کون میری عزت کو نیلام ہونے سے روکے گا؟ تو ان سوالات پہ وہ شخص لاجواب ہو گیا۔یہ میرا کہنا نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ہے جناب والا!!
ہمارے صحافی دوست کیخلاف 9B کا پرچہ دیا گیا جو ایک سال بعد عدالت میں ثابت ہوا کہ بے بنیاد اور جھوٹا پرچہ تھا اور پولیس کے ذمہ داران نے مال لے کر اور تفتیشی پر دباو ڈال کر پرچہ دیا تھا جس کو مقدمہ کے تفتیشی نے خود تسلیم کیا تھا۔اسی طرح منشیات، قمار بازی، فائرنگ، لاوڈ سپیکر ایکٹ کے متعدد پرچے مبینہ طور پر جھوٹے ہوتے ہیں، متعدد پولیس مقابلے مبینہ طور پر جعلی ہوتے ہیں۔قارئین کرام! یا تو اس ملک میں یہ قانون رائج کر دیا جائے کہ جس کیخلاف تھانے میں مقدمہ درج ہو گا اس کو چوک چوراہے میں مار دیا جائے گا اور کوئی پوچھ نہیں سکتا یا پھر یہ روایت اب ختم ہونی چاہیے کہ فلاں ملزم چار چھ دس مقدمات میں مطلوب تھا اور پولیس مقابلے میں مارا گیا۔سوال یہ ہے کہ پولیس کہاں سوئی ہوتی ہے اس وقت جب وہ اتنے مقدمات میں مطلوب ہوتا ہے؟؟ وہ جب قتل کر دیا جاتا ہے تب مقدمات میں مطلوب معلوم ہوتا ہے اور اس سے قبل وہ مبینہ طور پر ملی بھگت سے ”پولیس کے کارخاصوں ” کے ذریعے دیدہ دلیری سے اپنے روزمرہ کے معاملات چلاتا ہے۔پولیس کی تفتیش اور تفتیشی کے دلائل اتنے کمزور کیوں ہوتے ہیں کہ وہ عدالت کو قائل نہیں کر سکتا کہ یہ ملزم اسی مقدمے میں اسی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے الزام قبول کیا ہے اور وہ تفتیش اس کو سزا کیوں نہیں دلوا سکتی؟؟ مطلب کتی چوروں کے ساتھ ملی ہوتی ہے قارئین کرام! میں اس بات کا قائل ہوں کہ پولیس سمیت فورسز کے اوپر حملہ کرنے والے حملہ آور کو کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہیے جیسا کہ احسن یونس سابقہ CPO کا ریکارڈ رہا ہے، مگر کسی کو رُکنے کا اشارہ کرنے پر اس کا نہ رُکنا کیسے اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ عادی مجرم ہے، اشتہاری ہے یا دہشتگرد ہے؟؟؟ اسلام آباد، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ، بلوچستان میں متعدد ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں کہ ناکے پہ گاڑی نہیں روکی تو پولیس نے گولیوں سے بھون ڈالا۔۔ وجہ؟؟ کوئی پوچھنے والا جو نہیں۔گزشتہ دنوں گوجرخان میں جو واقعہ پیش آیا اس پہ سوالات اٹھ رہے ہیں، شہری حلقوں میں یہ واقعہ روزانہ کی بنیاد پر زیربحث ہے، ایس پی صدر کے بیان کے مطابق سنیپ چیکنگ کی جا رہی تھی تو یہ واقعہ پیش آیا، ایف آئی آر میں درج ہے کہ ملزمان چار تھے انہوں نے پولیس پہ فائرنگ کی (جبکہ پولیس کا کوئی ملازم زخمی نہیں ہوا) دو ملزمان فرار ہو گئے اور دو زخمی حالت میں گرفتار ہوئے، ایک دم توڑ گیا جبکہ ایک زیرعلاج ہے، ایف آئی آر میں درج ہے کہ ملزمان موٹرسائیکلوں پہ فرار ہوئے تو انکا پیچھا پیدل بھی اور گاڑی میں بھی کیا گیا، ایف آئی آر میں ذکر ہے کہ مضروب و جاں بحق شخص اپنے ساتھیوں کی فائرنگ کا شکار ہوئے جبکہ جاں بحق شخص کے دائیں بائیں بازو و ہاتھ پہ معمولی زخم و رگڑ اور سر کی بائیں جانب سوجن بتائی گئی ہے، ایف آئی آر میں درج ہے کہ دونوں ملزمان جی ٹی روڈ اور سروس روڈ پر گرے پائے گئے، یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس کی گاڑی پہ کسی قسم کے فائر کے نشانات نہیں پائے گئے جبکہ ایف آئی آر میں درج ہے کہ پولیس پارٹی نے مورچہ زن ہو کر اور گاڑی کی اوٹ میں پناہ لی، ہر پولیس مقابلے میں یہ کہانی لکھی جاتی ہے کہ مقتولین ملزمان اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے، پھر تو یہ پولیس مقابلہ نہ ہوا، یہ تو ملزمان کا ملزمان کے ساتھ مقابلہ ہوا، اس میں پولیس نے کونسا تیر مارا ہے؟؟ ایک اور قابل ذکر و اہم بات جو مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں ملزم بھائیوں کا تیسرا بھائی پولیس کے مخبر کے طور پہ کام کرتا رہا ہے اور شاید اب بھی کرتا ہے اور یہ بڑی حیران کن اور اچنبھے کی بات ہے اور اس شخص کو متعدد بار صحافیوں و دیگر شہریوں نے تھانہ کے اندر و باہر دیکھا ہے۔کیا راولپنڈی پولیس اور سی پی او راولپنڈی سے ہم سوال کرنے کی جرات کر سکتے ہیں کہ 25/25 مقدمات میں ملوث دو سگے بھائیوں /ملزمان کا بھائی تھانہ گوجرخان کے اندر کیا کرتا رہا/رہتا ہے؟؟ اس کیساتھ کس کس ایس ایچ او، تفتیشی، محرر اور کانسٹیبل نے ساز باز کر رکھی تھی کہ اسکے بھائیوں کو مقدمات میں ریلیف ملتا رہا؟؟ لیکن شاید یہ سوال کرنے سے ہم پنجاب پولیس کے دشمن ثابت ہوں، ہو سکتا ہے کہ اس سوال کا جواب ہمیں انتقامی کارروائی کی صورت میں ملے۔۔ شاید 150/200 گرام چرس کا پرچہ مجھ پہ بھی دے دیا جائے اور اسکو جھوٹا ثابت کرنے میں ایک سال لگ جائے۔لیکن ہم ڈرنے والے نہیں، ہم سوال کریں گے، پولیس اپنے آپ کو کلیئر کرے، ملزمان کا بھائی تھانے میں آتا جاتا رہتا تھا/ہے یا نہیں؟؟ سی سی ٹی وی فوٹیج ریکارڈ چیک کیا جائے۔ اسکی اور گزشتہ ایک سال کے دوران گوجرخان میں تعینات پولیس ملازمین کی فون کالز کا ڈیٹا چیک کیا جائے کہ اس ”مبینہ کار خاص“ کیساتھ کس کس پولیس افسر و اہلکار کا رابطہ رہا ہے۔ملزم عرفان کی موت مبینہ طور پر پولیس یا ”نامعلوم ساتھیوں“ کی فائرنگ سے نہیں ہوئی بلکہ اس کی موت مبینہ طور پر پتھر کیساتھ سر ٹکرانے یا ہارٹ اٹیک کے باعث ہوئی ہے تو اس ”مبینہ جعلی مقابلے“ کا کریڈٹ لینے والوں کو شرم کیوں نہیں آتی؟؟ سوال تو ہوں گے۔گوجرخان میں ایک سال کے دوران ریکارڈ چوری، ڈکیتی، راہزنی، موبائل چھیننے کی وارداتیں ہو چکی ہیں، تاجروں کے گھروں اور دکانوں میں مسلح ڈکیتی و چوری کی وارداتیں ہو چکی ہیں مگر سب خاموش تماشہ دیکھ رہے ہیں اور ا پنی باری کے انتظار میں ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تاجر، وکلاء، صحافی، سول سوسائٹی کے افراد مل کر لائحہ عمل مرتب کریں اور عوام کے جان و مال کا تحفظ نہ کر سکنے والے ملازمین کو یہاں ٹِکنے نہ دیا جائے۔یقیناً یہاں پھر کسی انسپکٹر عمران عباس کی ضرورت ہے جو جرم کو جڑ سے پکڑنا اور اکھاڑنا جانتا ہو اور ایسے شخص کی تعیناتی کیلئے سب کو آواز بلند کرنا ہو گی۔ والسلام
132