97

پنڈی پوسٹ کی کامیابی کاراز؟راجہ نوید حسین

پنڈی پوسٹ ما نکیالہ کی سردار مارکیٹ سے 4 سال قبل منصۂ شہود پر ابھرا عبدالخطیب چوہدری چیف ایڈیٹر ہفت روزہ کا یہ پڑاؤ اور سفر 1998ء ؁ سے جاری تھا اور ہے ۔ قومی اخباروں کی زیلی سطروں میں مانکیالہ سے متعارف کروانے والے نوجوان نے بالاخر 2012 میں ایک ہفت روزہ کا قیام کیا اردو اخبار کی دُنیا میں نہ صرف یہ اچھا اضافہ تھا بلکہ مثبت اور علاقائی صحافت کے فروغ کے لئے بہترین کاوش تھی ساتھ ہی ایک انتہائی ذمہ داری ٹیم بھی تشکیل دی جس کا مقصد ذمہ داری صحافت نبھانا ہے اور علاقے کے مسائل تعمیرو ترقی سیاسی مذہبی اور دیگر معاملات کو اخباری نثر میں ڈالنا ہے 4 صفحات کا یہ اخبار معمولی طور پر اس طرح تشکیل ہوتا ہے کہ فرنٹ پیچ میں علاقائی مسائل حالات و واقعات اہم سیاسی سرگرمیاں ملکی اور انٹر نیشنل خبروں سے فرنٹ پیچ کو لبریز کیا جاتا ہے صفحہ 2 پر اداریہ اور کالم کے ساتھ بچوں کے لئے مخصوص ہے ملک و قوم کے معمار جن کو حکیم سعید احمد شہید کی روایات (ماہ نامہ نونہال )کی یادیں تازہ کرتا ہوا صفحہ 2خوبصورت پھول اور کلیوں سے سجا رہتا ہے صفحہ 3 پر بقیہ اور کسی اہم مہمان ڈائری یا کالم کیلئے مخصوص ہے جبکہ کہوٹہ مری ٹیکسلا ، گوجرخان ، کوٹلی ستیاں اور تقریباً پورے پوٹھوہار کے کسی اہم خبر کو جگہ صفحہ 4 پر میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ اہم اور سنجیدہ صحافت کے معیار پر اترنے والے نئے اور پرانے لکھاریوں کی ڈائیریاں پنڈی پوسٹ کی پہچان ہیں اہم پہلو یہ ہے کہ کبھی تہلکہ خیز اور گرما گرم خبر کو لفظوں سے دہشت برساتی حادثوں کو سنسنی خیز بناتی جلی کٹی سرخیوں سے ادارے نے ہمیشہ ہٹ کر انتہائی ذمہ داری اور سنجیدگی سے فروغ صحافت کو جاری رکھا ہوا ہے بہت کم ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی خبر کو ذمہ داری زرائع کے بغیر شائع کیا گیا کسی سیاسی جماعت یا گروہ اور ادارے کے حوالے سے اخبار میں اپنی مخصوص پالیسی کو ہمیشہ قائم رکھتے ہوئے معیاری اور سنجیدہ صحافت جاری رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ آج پنڈی پوسٹ ڈسٹرکٹ راولپنڈ ی اہم اردو جریدہ ہے اس کے ساتھ آن لائن پڑھنے والے پوری دنیا کے مقیم پوٹھوار کے باسیوں کو اپنی علاقائی خبروں سے باخبر رکھتا ہے اور ہمیشہ اس کے قاری میں اضافہ ہو رہا ہے اردو صحافت کے جہاں بہت سے مسائل آڑے آتے ہیں پنڈی پوسٹ میں علاقائی صحافت کو تجربے سے ہینڈل کرتے ہوئے خبروں کے ذرائع کا ایک جال بنا لیا ہے جس پر عبدالخطیب چوہدری شاباش کے لائق ہے ۔ الحمد للہ چوہدری صاحب کے ساتھ درجنوں ایسے نام منصوب ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
انگریزی اخباروں کے حوالے سے طبقات نے واقعتا انگریزی اور اردو صحافت کا فرق قائم رکھا ہوا ہے اور اردو اخبار پڑھنے والے کے ساتھ یہ المیہ ہمیشہ قائم رہا ہے کہ جہاں اردو صحافت ایک ماڈرن دور میں داخل ہو چکی ہے وہاں غلط تاثر قائم و دائم ہیں کہ ہر شاعر ادیب اور کالم نویس کو صحافی تسلیم کر لیا جاتا ہے جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے اخبار بنانا خالہ جی کا گھر نہیں ہے یہ ہر کسی کا روگ نہیں ہے خبر ایک فن ہے ایک اچھا معلم قاری سیاسی لیڈر تقریر اور کالم تو لکھ سکتے ہیں رائیٹر کتاب تو لکھ سکتا ہے لیکن خبر اور سرخی کو بنانا ایک الگ موضوع ہے جس کے لئے تربیت اور مہارت کی ضرورت رہتی ہے اخبار نویسی باقاعدہ فن اور شعبہ ہے ایک علمیہ اور بھی ہے کہ تحقیقی صحافت کا بھی اردو شعبہ اخبار کو مسلہ درپیش رہتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بے سُرے بھی فن اور تال کی باتیں کرتے ہیں اور کاپی پیسٹ کی پالیسی نے سنجیدہ صحافت کے لئے مسائل کھڑے کر دئیے ہیں مگر اس کے باوجود ادارہ پنڈی پوسٹ اپنی ٹیم کے ساتھ ہر چھوٹی بڑی خبر سے پورے صحافتی ضابطوں کو پرکھ کر شائع کرتا ہے جو کہ انتہائی قابلِ تعریف بات ہے 4 سال کا سفر مکمل کرنے کے بعد عبدالخطیب چوہدری صاحب کو گزارش کرنا مقصود ہے جہاں انہوں نے انتھک محنت کی ہے اور اردو صحافت میں اپنا نام کمایا ہے مزید وسعت اختیار کرتے ہوئے کلچرر کرائنگ سپورٹس اور دیگر شعبہ صحافت کو اپنی اپنی جگہ الگ کر کے مزید ادارے میں استحکام لائیں آج کے دور میں صحافت ویڈیو جنرل لسٹ کے لئے علیحدہ شعبہ ہے اور سٹل فوٹو گرافر صحافی کا مقام الگ ہے اداریے لکھنے والے اپنی جگہ اور موقعے پر صحافت کرنے والے کرائیم رپورٹر اور فیلڈ رپورٹر اپنا اپنا الگ مقام رکھتے ہیں اردو فروغ صحافت کے بہترین 4 سالوں پر پنڈی پوسٹ حقیتاً شاباش اور داد کے لائق ہے ۔ {jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں