میں جب بھی اس شخص اور میرے دوست شہزاد رضا کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس شخص کو اپنے رب کے ہر فیصلے پر سو فیصد یقین ہے۔ اسکے ذہن میں اللہ کے ہر کام میں مصلحت چاروں طرف دیکھی جا سکتی ہے۔ جو شخص اللہ کے فیصلوں پر مکمل اعتماد اور یقین رکھتا ہے وہی شخص کسی دوسرے انسان کے دل و دماغ کو ایک لمحے میں پہچان لیتا ہے۔ میں نے جب بھی شہزاد بھائی کو دیکھا وہ ہر کام محنت سے کر کے اس کے بعد نتیجہ اپنے رب کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد میرا مالک اسکا بدلہ بہتر یا بہترین یا گیا گزرا دیتا ہے شہزاد رضا اس فیصلے کو بہترین انداز میں قبول کر لیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کل کائنات کو بنانے والے کے ہر فیصلے میں کوئی مصلحت چھپی ہوتی ہے شہزاد بھائی کے چہرے سے مسکراہٹ اور خوشی ہر وقت رواں دواں رہتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کسی پریشانی میں غمگین ہونا اس مشکل کو کم نہیں کر سکتا۔ کسی بھی پریشانی یا ازیت میں ہر انسان اندر سے پریشان ہوتا ہے اور سو فیصد میں سے 90 فیصد افراد باہر سے بھی غمگین نظر آتے ہیں اور یہ کسی بھی انسان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے مگر دس فیصد لوگ اندر سے تو پریشان ہوتے ہیں مگر باہر سے یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے خوشیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اور یہی حالات شہزاد بھائی میں موجود ہیں شہزاد بھائی دوستوں کے ساتھ دوست اور بھائی بن کر کھڑا رہتا ہے اور اپنے دشمنوں سے ہاتھ ملا کر سلام کر کے آگے پیچھے ہو جاتا ہے تاکہ وہ دشمنی مزید آگے نہ جا سکے اور اسکے ساتھ کھڑا اس لیے نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے یہ نہ سوچیں کہ شہزاد رضا بھی گےء گزرے افراد کے ساتھ بیٹھتا ہے لہذا یہ بھی ان جیسا ہے۔ شہزاد رضا جب سے پنڈی پوسٹ اخبار شروع ہوا اسکے ساتھ ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بیشمار اخبارات والوں نے شہزاد بھائی کو کہا ہو گا کہ ہمارے پاس آ جائیں ہم آپ کو بہترین تنخواہ دیں گے مگر شہزاد رضا نے ایک جملہ بول کر اس نوکری کو یک دم،اچانک اور ایک لمحے میں ٹھکرا دیا ہوگا۔ کیونکہ میں شاہد جمیل کسی شخص کے ماتھے کو دیکھ کر اسے پہچان جاتا ہوں اور وہ جملہ یہ ہے۔چیف ایڈیٹر چوہدری عبد الخطیب مُجھے اپنے بھائیوں کی طرح اپنے ساتھ رکھتا ہے اور جب بھی کوئی مشکل وقت آ جائے تو بنا کہے سمجھ جاتا ہے اور ہم سب انہیں بتا نہیں پاتے ہیں کیونکہ انہوں نے بھی اپنی زندگی بے بہا نشیب و فراز اور تلخ حقیقت کا سامنا کر کے گزاری ہے۔
لہذا میں ہر لحاظ سے پنڈی پوسٹ یعنی اپنے دوسرے گھر میں اطمنان کی زندگی گزار رہا ہوں۔ شہزادرضا بھائیوں اور بہنوں میں تیسرے نمبر پر ہیں ان سے بڑے بھائی بیرون ملک رزق حلال میں سرگرداں ہیں اور ایک بہن ان سے اور ایک چھوٹی اپنے اپنے گھروں کی ہو گئی ہیں والدین کا سایہ سر پر رواں دواں ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ یہ چھاؤں والے درخت ساری زندگی قائم و دائم رکھے آمین۔ جب والدین گھر سے اچانک چلے جاتے ہیں تو پھر محسوس ہوتا ہے کہ چھاؤں کا گھنا سایہ ہم سب کو الوداع کہ گیا مگر پھر اس کے بعد انسان ان غلطیوں پر بار بار رب سے معافی مانگتا ہے مگر اللہ کیسے معاف کر سکتا ہے۔
لہذا اپنے والدین کے سامنے ایسے کھڑے رہیں کہ جیسے وہ اپنا سب کچھ قربان کر کے آپ کو کامیاب بناتے رہے۔ ہو سکتا ہے کہ سارا دن بھوک گزارنے کے بعد گھر آ کر کہیں۔میں تو کھانا کھا آیا ہوں اففف شہزاد بھائی دوستوں کو اپنے بھائیوں کی طرح رکھتے ہیں اور اگر کوئی گڑ بڑ کر جاےء تو اسے ایک دم چھوڑ دیتے ہیں چاہے وہ بار بار معافی مانگے۔ مگر اس سے ناراض ہرگز نہیں ہوتے کیونکہ اسلام میں ناراضگی منع ہے۔ بس اس دوست کو یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ میں نے غلط کام کر کے اپنا دوست اور بھائی ساری زندگی کے لیے خود سے جدا کر دیا۔شہزاد بھائی کمپوزنگ اور کمپیوٹر کے ماہر ہیں اور جب کلر کالم لکھتے ہیں تو کالم نگار سے پوچھے بغیر اسی کے کالم سے بہترین جملے کالم کے آغاز میں بہترین موتی کی طرح جگمگ جگمگ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور میں تو حیران ہو جاتا ہوں
کہ شہزاد رضا کو اللہ نے اتنی صلاحیت دے رکھی ہے۔ اور ایک اور بات بتاؤں کہ چوہدری عبدالخطیب کے اندر ایک خصوصیت ہے کہ یہ شخص جس فرد کو پنڈی پوسٹ میں رکھ لیتا ہے اسے خود ہر گز نہیں نکالتا۔ جب کوئی دوست یہ ہفت روزہ اخبار چھوڑ کر گیا اپنی مرضی سے گیا اور پھر جانے کے بعد دوبارہ آنے کی کوشش کی مگر عبدالخطیب صاحب یہ کہ کر معاملے کو رفع دفع کر دیتے ہیں کہ بھائی پہلی بات ہے میں نے آپ کو ہرگز نہیں الوداع کہا تھا بلکہ آپ خود چھوڑ کر گئے تھے اور اب آپ کی کرسی پر ایک اور بندہ بیٹھا ہوا ہے اور پھر اس کے بعد زندگی یکسر بدل گئی۔شہزاد رضا کے دل میں انسانیت چوبیس گھنٹے چاروں طرف گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور جب میں انکی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ شخص معلوم نہیں کن سوچوں میں گم ہے اور پتہ نہیں کس فرد کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ محفل میں بہت کم بولتا ہے مگر جب بولتا ہے
تو اسکا ایک جملہ دو پیراگراف کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے یعنی دریا کو کوزے میں بند کردیا کرتا ہے۔ شہزاد بھائی کا کردار سمندر کی مانند ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ندی دریا میں گرتی ہے اور دریا سمندر میں گرتا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر سمندر نہ تو ندی میں گرتا ہے اور نہ ہی دریا میں کیونکہ بے بہا پانی نہ تو لوٹے میں جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ڈرم یا ٹینکی میں۔ لہذا شہزاد رضا کا کردار اپنی الگ پہچان رکھتا ہے اور ساری زندگی اسی رفتار سے حرکت کرتا رہے گا۔
سیاسی معاملات میں کسی سے بحث نہیں کرتا اور کوئی بھی شخص جو کسی بھی پارٹی سے ہو اگر وہ کردار میں بہترین یے تو شہزاد بھائی اسکی حمایت میں سر دڑھ کی بازی لگا دیتے ہیں اور اگر کوئی غلط ہے تو اسے سلام کر کے اس سے الگ ہو جاتے ہیں۔ کسی امیر یا غریب سے ایسے ملاقات کرتے ہیں کہ جیسے یہ اسکے بہترین دوست ہوں مگر میں نے محسوس کیا کہ یہ بندہ غریب مسکین اور لاوارث افراد کو سب سے پہلے ملتا ہے اور دوسروں کو بعد میں اور یہی اس کی خصوصیت مجھے پسند ہے۔ اللہ پاک میرے دوست شہزاد رضا اور اسکی سارے خاندان کو اور اسکے دوستوں کو اور ارد گرد بسنے والے تمام افراد کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب فرمائے آمین اور دوسروں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شہزاد بھائی کے والدین اور ان سب کے والدین کا سایہ سر پر سلامت رکھے اور جن کے والدین اور رشتے دار یہ فانی دنیا چھوڑ گئے اللہ پاک انکی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ شہزاد رضا کے حوالے سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیں اور پھر حوالے رب کے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے