آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ ہفت روزہ پنڈی پوسٹ میں اب باقاعدگی سے لکھنے کی وجہ ایک پرانی خبر ہے جسکو کو ٹویٹر پہ لگایا تو فورا متعلقہ ادارے سے اس کا ردعمل آگیا۔ میرا پرنٹ میڈیا میں آنا صرف اپنے شوق کو پورا اور تحصیل کہوٹہ سمیت تمام علاقے کی نمائندگی کرنا اور مسائل کو متعلقہ افسران اور اداروں تک پہچانے کی کوشش کرنا بھی ہے۔پاکستان میں پرنٹ میڈیا کو انٹرنیٹ کے عام ہونے تک بہت پزیرائی حاصل تھی۔ موجودہ وقت میں بھی قومی یا علاقائی اخبار نکالنا بڑی ہمت اور دلیری کا کام ہے
خاص کر جب آزادی اظہار رائے پہ قدغن لگائی جائیں۔ میڈیا کی اپنی اہمیت ہے، پرنٹ میڈیا علاقائی مسائل /خبروں کو کو اچھی طرح سے گہرائی میں اجاگر کرسکتا ہے۔ جبکہ اخبار ہی مستند حقائق کا ذریعہ ہے۔ پنڈی پوسٹ کے بارہ سال مکمل ہوگئے ہیں یوں تو پنڈی پوسٹ سے تعلق نیا نیا ہے لیکن بلاشبہ یہ ایک ایسا فورم ہے جس نے علاقائی
مسائل کو بخوبی اجاگر کیا۔ اسکے ساتھ نئے نئے لکھارے پیدا کئے
۔ علاقائی صفحات کو پروان چڑھایا۔ آپکو مزید حیرت ہوگی کہ صرف ایک ملاقات مجھے یہاں تک لائی ہے۔ جس خبر کا ذکر شروع کیا تب پنڈی پوسٹ کا قاری تھا لیکن اس کی انتظامیہ کی حوصلہ افزائی نے مجھے پنڈی پوسٹ سے
جوڑ دیا۔میڈیا کو معاشرے کی آنکھ کہا جاتا ہے اس لئے یہاں ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ذاتی
پسند ناپسند، سیاست، معاشرت، مخالفت ان سب کو مدنظر رکھ
کے غیر جانبدار ہو کر پنڈی پوسٹ نے اپنا تشخص برقرار رکھا ہے۔ گزشتہ بارہ سال میں علاقائی صحافت اور خدمت میں اپنا نام پیدا کیا ہے۔ ایک ادنی سا طالبعلم ہونے کے ناطے میری یہی خواہش ہے کہ جناب محترم چیف ایڈیٹر عبدالخطیب
چوہدری کے زیر سایہ چلنے والا علاقائی صحافت اور خدمت کا یہ سلسلہ تادیر بلکہ ہمیشہ چلتا رہے۔