2مئی 2012 کا سورج راولپنڈی کی فضا میں ایک ایسی کرن لے کر طلوع ہوا، جس نے دیہی صحافت کے منظرنامے میں روشنی کی ایک نئی لکیر کھینچ دی۔ ہفت روزہ پنڈی پوسٹ صرف ایک اخبار نہیں، یہ ایک عہد، ایک مشن، اور ایک خواب کی تعبیر ہے جو عبدالخطیب چوہدری نے اپنی محنت، عزم اور دیہی محبت سے سنوارا۔عبدالخطیب چوہدری کا تعلق ضلع و تحصیل راولپنڈی کے نواحی گاؤں موہڑہ بھٹاں سے ہے۔ ایک ایسا گاؤں جو پوٹھوہار کی خوشبو، مزاج، لہجے اور وضع داری کا نمائندہ ہے۔ 1975 میں پیدا ہونے والا یہ شخص 1991 سے اپنی قلمی کاوشوں کے ذریعے اس خطے کے مسائل پر روشنی ڈالتا آ رہا ہے۔ نوائے وقت، روزنامہ صحافت اسلام آباد اور روزنامہ اساس جیسے اخبارات میں خدمات انجام دینے کے بعد 14 اگست 2010 کو انہوں نے راولپنڈی ڈسٹرکٹ نیوز کے نام سے ایک ویب سائٹ کا آغاز کیا، جو دو سال بعد، 2 مئی 2012 کو پنڈی پوسٹ کی شکل میں ہمارے ہاتھوں میں آئی۔
میں نے ان سے بالمشافہ ملاقات تو نہیں کی، لیکن ٹیلیفون پر ہونے والی گفتگو نے دل کو یوں چھو لیا جیسے ایک پُرانا دوست برسوں بعد ملا ہو۔ ان کی باتوں میں خلوص تھا، لہجے میں دیانت، اور انداز میں ایک ایسی عاجزی جو صرف مٹی
سے جُڑے لوگوں میں ملتی ہے۔میں نے ان سے پوچھا کہ اس اخبار سے آپ کو معاشی فائدہ ہوتا ہے؟ وہ ہنسے، ایک سادہ سی ہنسی، جو دل میں اُتر جائے۔ کہنے لگے، ”میرے پاس سیمنٹ کی ایجنسی ہے، میں وہاں سے کماتا ہوں اور اخبار پر لگاتا ہوں۔ یہ میرے لیے کاروبار نہیں، مشن ہے۔“
میرے دل سے بیساختہ دعا نکلی — کہ اللہ ایسے لوگوں کے حوصلے قائم رکھے، کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ”صحافت“کو ابھی تک ”مقدس“ رکھا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پی آئی ڈی کو بھی معلوم ہے کہ یہ اخبار نکلتا ہے، لیکن وہاں بیٹھے”منصوبہ ساز“ صرف اُن
اخبارات کو اشتہار دیتے ہیں جن کے پیچھے سرمایہ دار اور اثرورسوخ کھڑا ہو۔ پنڈی پوسٹ جیسے خالص، دیہی اور سچائی کے علمبردار اخبارات ان کی ترجیحات میں نہیں آتے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ:
نہ پوچھو کتنے چراغ بجھائے زمانے نے
اک سچ کی لو تھی، جو بجھنے نہ دی ہم نے
خطیب چوہدری صاحب نہ صرف صحافت میں سرگرم ہیں، بلکہ سیاست اور سماجی خدمت میں بھی وہ ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ 2001 میں جنرل کونسلر منتخب ہو کر وہ میدان سیاست میں آئے اور ”پوٹھوہار سوشل ویلفیئر ایسوسی ایشن“کے صدر بھی ہیں۔ ان کی زندگی ایک مقصد، ایک جذبے اور خدمتِ خلق کی عملی مثال ہے۔جب میں نے ان سے ان کے مشن کے بارے میں پوچھا تو بڑی محبت سے بولے:
”میرے لیے اصل کمائی عزت ہے، دولت نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کی آواز بنوں، ان کے دکھ درد بانٹوں۔ اخبار میری کمائی نہیں، میری دعا ہے۔“
یہ باتیں میرے دل میں اُتر گئیں۔میں خود بھی اس پوٹھوہار کا باسی ہوں — وہی پوٹھوہار جس کی پہاڑیوں میں سادگی چھپی ہے، جس کی ہواؤں میں ماضی کی خوشبو بسی ہے، جہاں لوگوں کے لہجے میں محبت اور مزاج میں شرافت ہے۔ گزشتہ 25 سال سے میں بھی ان ہی گلیوں، چوپالوں، اور کچی پگڈنڈیوں کا راہی ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس دھرتی کے لوگ کتنے مزیدار، خلوص سے بھرپور اور جفاکش ہیں۔
پوٹھوہار کے وہ لوگ، جن کے ساتھ میں نے چائے کے کپ بانٹے، جن کی شادیوں میں شریک ہوا، جن کے بچوں کی خوشیوں میں ہنسا، اور جنازوں میں اشکبار ہوا۔ یہ سب میری زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کی بولی میری اپنی ہے، ان کے دُکھ میرے دل کا درد ہیں۔میرے وہ دوست جو پوٹھاری ہیں،جن کے چہروں پر دیہات کی معصومیت اور دلوں میں شہر جیسی وسعت ہے،ان کے ساتھ میرا رشتہ صرف تعلق کا نہیں،روح کا، محبت کا اور خلوص کا رشتہ ہے۔اور پنڈی پوسٹ دراصل ان ہی دوستوں کی زبان ہے،ان ہی کے دکھوں کا آئینہ،ان کی خوشیوں کا ترجمان اور ان کے خوابوں کا محافظ ہے۔یہ اخبار ان کے گاؤں کی گلیوں، اُن کے بزرگوں کے خوابوں، اُن کے بچپن کی دوپہروں کی خوشبو ہے۔”پنڈی پوسٹ“ وہ آئینہ ہے جس میں پوٹھوہار اپنا چہرہ دیکھتا ہے۔یہ وہ صدا ہے جسے پہاڑ بھی سنیں اور وادیاں بھی۔یہ وہ چراغ ہے جسے کچھ لوگ بجھانا چاہیں،لیکن ہم اس کے محافظ ہیں،کیوں کہ یہ ہمارے دل کی لو ہے۔اللہ کرے یہ چراغ ہمیشہ جلتا رہے۔پوٹھوہار کی پہچان بن کے،دیہی دلوں کی زبان بن کے۔